تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿بقرہ، 111﴾
ترجمہ: اور وہ (یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ کوئی ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر وہی جو یہودی و نصرانی ہوگا۔ یہ ان کی خیال بندیاں اور خالی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل پیش کرو.
تفســــــــیر قــــرآن:
1️⃣ یہود و نصاریٰ کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ مسلمان بہشت سے محروم ہیں.
2️⃣ مسلمانوں کا بہشت سے محروم ہونا یہ یہود و نصاریٰ کا باطل اور نادرست وہم و گمان ہے.
3️⃣ مسلمانوں کے جذبوں کو کمزور کرنے اور ان کی اسلام کی طرف ترغیب و رجحان کو روکنے کے لیے یہود و نصاریٰ کی کوششیں.
4️⃣ یہود و نصاریٰ کے دینی عقائد اور معارف باطل خیالات اور توہمات پر مشتمل ہیں.
5️⃣ یہود و نصاریٰ کے پاس اپنے دعوٰی کے لیے کوئی دلیل نہیں اور بغیر دلیل کے دعویٰ کی کوئی قدر و قیمت نہیں.
6️⃣ دینی عقائد و معارف کی بنیادیں دلیل اور برہان پر قائم کرنے کی ضرورت ہے.
7️⃣ دینی عقائد و معارف کے لیے خطرہ موجود ہے کہ آرزوؤں اور باطل خیالات سے مل جل جائیں.
8️⃣ دینی عقائد کے میدان میں دینی حقائق کو خیالات اور آرزوؤں سے پہچاننے کی راہ یہ ہے کہ معارف کو دلیل و برہان سے پیش کیا جائے.
تفسیر راھنما، سورہ بقرہ