حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کی سابقہ مرکزی سیکرٹری یوتھ شعبۂ خواتین محترمہ سائرہ ابراہیم نے ایک مذمتی بیان میں کہا ہے کہ کراچی شہر سے ملت تشیع سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں ایک بار پھر تیزی لمحہ فکریہ ہے اگر کوئی مجرم ہے تو سزا کیلئے عدالتیں موجود ہیں، لہٰذا انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کے ریاستی اداروں کو اپنا مور اور چور تو چوبیس گھنٹے میں مل جاتے ہیں، لیکن جبری گمشدہ نوجوانوں کی تلاش میں سالوں لگ جاتے ہیں، جو کہ افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ 32 سال گزرنے کے باوجود بھی آج سانحہء 1988ء گلگت کے مجرم اداروں کی پہنچ سے دور ہیں اور حالیہ دنوں شہید کئے جانیوالے سات استاتذہ کے قاتل نامعلوم ہیں تاہم کراچی شہر سے ایک بار پھر جبری گمشدگیوں میں تیزی تشویشناک ہے اور ان جبری گمشدگیوں پر اداروں کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ریاستی ادارے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو جبری اٹھایا جاتا ہے؟ کہا کہ ہم ریاستی اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جبری گمشدہ نوجوانوں کو جلد ازجلد بازیاب کرائیں۔
سائرہ ابراہیم نے کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہے جس کی عوام پر اپنے خطے میں ہی زندگی تنگ کر دی گئی ہے، بنیادی ضرورتوں سے محروم خطے کے محب وطن نوجوان جب روزگار کے لئے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی غیر محفوظ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کے ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے ہمارے خطے میں ہی وسائل پیدا کئے جائیں تاکہ وہ دوسرے شہروں میں دھکے نہ کھائیں۔
محترمہ سائرہ نے ایک بار پھر تمام جبری گمشدگیوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گلگت سے تعلق رکھنے والے نوجوان تاجدار علی سمیت پورے ملک سے جبری گمشدہ شیعہ نوجوانوں کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے اور اگر کوئی مجرم ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، کیونکہ سزا کا اختیار عدالتوں کو ہوتا ہے۔