۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 391584
29 جون 2023 - 17:58
علی عباس زینبی

حوزہ|کل حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں قارون نے اپنے مال کو اپنی موت کا ذریعہ بنایا تھا یا آج ٹائٹن کے ذریعے اپنے مال سے موت کو خریدا گیا۔اگر کسی نے فطرت کو چیلنج کر کے نہ ڈوبنے والی سب سے مضبوط اور قیمتی کشتی تیار کر لی بھی تو قدرت نے اسے عام سی کشتی کے مقابلے میں بھی ٹکنے نہ دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین علی عباس زینبی

موت ایک حقیقی امر ہے اس سے کائنات کا کوئی ذی روح بچ نہیں سکتا ہر نفس کو ذائقہ موت چکھنا ہے جوان ہو یا بوڑھا بچہ ہو یا کم سن جنین ہو یا شیر خوار موت سے فرار کسی کو ممکن نہیں ہے بڑے بڑے منصب و دولت و طاقت والے جو کائنات پر حکومت کرتے تھے اجل نے ان سے بھی سانسیں چھین لی اچھا ہو یا برا کوئی آج تک پنجہ موت سے بچا نہیں یہ آنی تو سب کو ہے لیکن کب اور کہاں آنی ہے کسی کو خبر نہیں جب یہ آتی ہے تو تخت پر بیٹھے ہوئے فرعون کو دریائے نیل تک کھینچ کر لاتی ہے اور وہی دریا جو چند لمحے پہلے حیات کی نوید بانٹ رہا تھا فرعون کو غرق آب کر کے موت کی طاقت کا لوہا منواتا ہے اور دوسری طرف خدائی حکومت کا غالب شہنشاہ سلیمان جس کو قدرت نے بحر و بر کے ساتھ ساتھ چرند پرند ہوا بادل اور نہ جانے کون کون سی مخلوقات پر حق دسترس دیا ہو ایسے حاکم کو بیٹھنے تک کا موقع نہیں دیتی، ایسا بہادر جس کو اپنی بازوں کی مچھلیوں پر بڑا بھروسہ تھا جس نے اپنی طاقت کا لوہا برق سیفی سے منوایا جس کی تلوار کے شراروں نے نہ جانے کتنی زندگیوں کی جھوپڑیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا جس کی تلوار کا پانی مصر و روما ایران و افغانستان جیسے بہت سے ملکوں نے پیا وہ شہنشاہ جس کے نام کے خوف سے ہی بادشاہ اپنا تاج اتار کر قدموں میں ڈال دیتے تھے جس کے خزانے میں کائنات کی دولت یکجا ہو گئی تھی جب موت نے اسے دبوچا تو بس دنیا کے اطباء و حکماء و علماء سے یہی کہتا رہا میرے مال و دولت کو لے لو تخت و تاج کو آپس میں بانٹ لو اور میرے لیے بس اتنی مہلت خرید لو کہ میں اپنے وطن جا کر مرسکوں لیکن مال و منصب رہ گیا اور موت نے سکندر کو اجازت نہ دی۔

اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہ ہوتے ہوئے بھی کوئی موت کے لیے تیار نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ لوگ موت سے ڈرتے تو ہیں لیکن اس ڈر میں رہتے ہوئے بھی انہیں احساس ہی نہیں ہو پاتا ہے کہ وہ جس سے بھاگ رہے ہیں اسے خود ہی خرید رہے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے بھلا کوئی موت کیوں خریدے گا تو ذرا اپنے آس پاس نظر دوڑائیے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہم روز اپنے لیے موت خریدتے ہیں یہ اور بات ہے کہ رب نے ابھی ہمارا وقت معین نہیں کیا ہے لیکن ہم پل پل موت کو اپنا قیمتی سرمایہ دے کر خرید رہے ہیں کبھی بے تکی ڈرنک پیپسی اور اسپرائٹ اور اس سے ملتی جلتی دیگر مشروبات کے ذریعے تو کبھی پزا و برگر و فاسٹ فوڈ کے ذریعے تو کبھی کسی اور بہانے ،تعجب تو تب ہوتا ہے جب کچھ کمپنیاں اور دکاندار موت کا لیبل لگا کر گٹکا و تمباکو کی شکل میں موت بیچتے نظر آتے ہیں اور لوگ خوشی خوشی قیمت ادا کر کے اسے خریدتے نظر آتے ہیں دنیا کے برے سے برے انسان جس کی حیات کے لیے اپنی زندگی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں انہیں بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کے لیے قدرتی ماں کا دودھ ہوتے ہوئے کمپنیوں کا دودھ ملا کر موت کی سوداگری میں مددگار بنتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ تو وہ ذرائع ہیں جس سے انسان دھیرے دھیرے مرتا ہے لیکن بزرگوں سے صحیح سن رکھا ہے کہ ہر چیز کی کثرت و زیادتی ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے لوگ مال اس لیے یکجا کرتے ہیں کہ وہ اس مشکل بھری دنیا میں سکون کی چند سانسیں اپنے اہل و عیال کے لیے خرید سکیں لیکن کیا کہا جائے کہ جب موت پکار رہی ہو تو اس سے پھر کون بچا سکتا ہے اگر موت سے بھاگنے کی کوشش کرو تو یہ اتنا مجبور کر دیتی ہے کہ مرنے والے سے ہی اس کی قبر تیار کراتی ہے۔

آج دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے یا یوں کہوں ترقی کی چوٹی پر اپنا پرچم گاڑ چکی ہے کل تک ہم گھوڑے اور اونٹوں کی سواریاں کرتے تھے آج بس اور ریل سے، اڑنے کے لیے ہوائی جہاز بھی ہم نے تیار کر لی ،سمندروں کے کلیجوں کو چیرتی ہوئے تیز رفتار کشتیاں بھی ہم نے بنا لی، ترقی ہی ترقی ہے لیکن موت کا کوئی علاج نہ ڈھونڈ سکے اور اگر کسی نے فطرت کو چیلنج کر کے نہ ڈوبنے والی سب سے مضبوط اور قیمتی کشتی تیار کر لی بھی تو قدرت نے اسے عام سی کشتی کے مقابلے میں بھی ٹکنے نہ دیا اور چار پانچ دن کے اندر ڈبو کر پھر احساس دلا دیا کہ بس قدرت خدا کی ہے، اور وہی ہر شے پر غالب و قادر ہے۔

اتنی بڑی جہاز ایک ملبہ کا ڈھیر ہو کر رہ گئی جسے ڈھونڈنے میں 73 سال لگ گئے اور1517 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی دنیا نے عبرت حاصل نہ کی اور پھر ایک بار مہنگی موت خریدنے نکل پڑے دو کروڑ خرچ کر کے موت کی طرف چلے آج اس ترقی یافتہ دور میں جہاں ٹائٹن آبدوز جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس تھا وہ لوگوں کو چند دن بھی سمندر کی آغوش میں زندہ نہ رکھ سکا لیکن کروڑوں جانیں قربان ہوں خدا کی قدرت و طاقت پر وہ اپنے ایک اشارے سے ہزاروں سال پہلے سمندر میں تیرنے والی خطرناک مچھلی کو اپنے حکم سے اپنی ٹائٹن بناتا ہے اور یونس نبی کو نگل جانے کا حکم دیتا ہے یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں ہیں سانس لینے کے لیے نا اکسیجن پائپ ہے نہ کھانے پینے کا کوئی بندوبست لیکن 40 دن تک نبی کو زندہ بھی رکھے ہےتعجب تو یہ ہے کہ ٹائٹینک جیسی جہاز جو 10 اپریل 1912کو صدر سمندر پہ اپنے شان و شوکت سے دوڑی تھی وہ محض 14 اپریل 1912 کو ہی ڈوب گئی ٹائٹینک پانچ دن سے زیادہ باقی نہ رہ سکی اور ٹائٹن کے پانچ لوگ بھی باقی نہ رہ سکے یا تو کل حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں قارون نے اپنے مال کو اپنی موت کا ذریعہ بنایا تھا یا آج ٹائٹن کے ذریعے اپنے مال سے موت کو خریدا گیا قرآن نے کیا خوب کہا ہے "فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ"( سوره حشر (59) آیت 2)

تحریر: علی عباس زینبی 28/06/2023

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .