حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ماہ محرم الحرام کی دوسری مجلس کو امام باڑہ غفران مآب میں خطاب کرتے ہوئے مولانا سید کلب جواد نقوی نے ہندوستان میں شیعیت کی تاریخ کو بیان کیا ۔انہوں نے کہاکہ جس زمانے میں بہت زیادہ سہولتیں دستیاب نہیں تھیں ،اس وقت ہمارے بزرگوں نے تبلیغ دین کے لئے کس قدر زحمتیں برداشت کیں،ان کےبارے میں نوجوان نسل کو آگاہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے بیان کیا کہ ہندوستان کی وہ پہلی شخصیت جو ہندوستان سے عراق تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئی وہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ کی تھی ،جنہوں نے اس وقت تمام سفری صعوبتیں برداشت کرکے پانی کے راستے عراق کا سفر اختیار کیا ۔اس کے بعد وہ ایران بھی گئے اور وہاں بھی تعلیم حاصل کی ۔اجتہاد کے درجے پر فائز ہونے کے بعد وہ ہندوستان واپس تشریف لائے اور لکھنؤ کو اپنی تبلیغ کا مرکز قرار دیا۔مولانانے کہاکہ ہمارے پاس آج جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے علما کی محنتوں اور قربانیوں کا ثمرہ ہے ،اس لئے ہمیں اپنے علما کے خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
مولانا نے کہاکہ حسینؑ کی عزاداری کسی بادشاہ کی دولت کی مرہون منت نہیں ہے ۔یہ کہنا کہ اودھ کے نوابوں نے اپنی دولت کے بل پر غیر مسلموں کو عزاداری اور تعزیہ داری کی طرف راغب کیا،سراسر غلط ہے ،توکیا اندور اور جہاں بھی آج ہندو اور برادران اہل سنت عزاداری کرتے ہیں، انہیں بھی اودھ کی حکومت پیسے بھیجتی تھی؟ یہ صرف جھوٹ ہے اور عزائے امام حسینؑ کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ہندوستان ہی نہیں دنیا میں جہاں بھی عزاداری اور تعزیہ داری ہورہی ہے وہ قربانیٔ امام حسینؑ کی عظمت اور تاثیر کی بنیاد پر ہورہی ہے ۔عزاداری پر یہ اللہ کا لطف خاص ہے جس کی بنیاد پر آج تک عزائےامام حسینؑ فروغ پارہی ہے ۔
مولانانے اپنی تقریر کے درمیان عزائے امام حسینؑ کی عظمت اور فضلیت کو بھی بیان کیا ۔مولانانے کہاکہ پیغمبر اسلام نےفرمایاہے کہ میرا حسینؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے ۔اگر ہدایت اور نجات چاہیے تو درامام حسینؑ پر آنا ہوگا۔مجلس کے آخر میں مولانانے کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے ورود کو بیان کیا ۔بنی اسد سے کربلا کی زمین کی خریداری اور ان سے کئی گئی وصیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ،جس پر سامعین نے بے حد گریہ کیا۔