۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مندوب کا گزشتہ روز (15 اپریل 2024) کو دیا گیا یہ بیان کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر پراکسیز کے ذریعہ عالمی سطح پر شیعت مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت اہمیت کا حامل بیان ہے۔

تحریر: سید شجاعت علی

حوزہ نیوز ایجنسی | اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی مندوب کا گزشتہ روز (15 اپریل 2024) کو دیا گیا یہ بیان کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر پراکسیز کے ذریعہ عالمی سطح پر شیعت مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت اہمیت کا حامل بیان ہے۔

جہاں یہ بیان شیعت اور نظام ولایت فقیہ کی طاقت کا دشمن کی زبان سے اقرار ہے وہیں شیعت کو مستقبل قریب کے خطرات سے آگاہ کر رہا ہے لہذا اس بیان کو سنجیدہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔

اسرائیل اور عالمی صہیونیت کو یقین کی حد تک یہ خطرہ ہو چکا ہے کہ ولی فقیہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی جانب سے اسرائیل اور عالمی استعمار کے خلاف اٹھائے جانے والے موثر اقدامات عالمی سطح پر ولایت کا نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کرتے جارے ہیں یعنی صیہونی نظام کی عالمی اجارہ داری کا خاتمہ شیعت کے ہاتھوں ہونے جا رہا ہے۔ بلا شبہ انقلاب اسلامی حضرت صاحب العصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لیے زمینہ سازی کر رہا ہے اور رہبر معظم کی بابرکت ذات اس کے لیے موثر اقدامات اٹھا رہی جو سیاسیات ، ثقافت، سماجیات، معاشیات، دفاع اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبہ زندگی میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات اقوام عالم کو اسلام محمدی کے حقیقی چہرہ سے روشناس کروانے اور اقوام عالم کو توحیدی معاشرہ کی برکات و ثمرات سے آگاہی فراہم کر رہے ہیں جن سے دنیا کی مظلوم و محکوم عوام اسلام کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک انقلابی اسلامی معاشرہ کس بھی مذہب کی سائنسی و علمی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ وہ اس ترقی میں شراکت کرکے اسے مزید ترقی دینے کا خواہاں ہوتا ہے اور اسے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لانے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کا ٹکراؤ ظالم اور انسانیت کے دشمن سے ہوتا ہے خواہ وہ اس کا اپنا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ اسی سلسلے میں مشہور روایت ہے کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں۔ ایک حقیقی شیعہ کا حکومت کے بارے میں یہی نظریہ ہے۔ بات ادھر ادھر نہ ہو جائے اس لیے اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹتا ہوں کہ اسرائیل کا رہبر معظم کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ بیان دینے کا مقصد کیا ہے۔ تو اس سلسلہ میں جہاں تک میں محسوس کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اسرائیل شیعہ عقیدہ مہدویت کو بطور عالمی خطرہ کے طور پر دنیا کے تمام مذاہب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے اور اس مہدوی عالمی انقلاب کو دنیا کے لیے شدہ نقصان دہ ثابت کر کے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایران سے نظام ولایت فقیہ کے خاتمہ کے لیے اقوام عالم سے مدد چاہتا ہے اور شیعت کو دنیا مختلف ممالک کے لیے داخلی خطرہ کے طور پر پیش کر کے ان کی حکومتوں سے شیعہ مخالف اقدامات کا تقاضا کر رہا ہے۔ شیعہ کا دنیا میں عدل و انصاف کا نعرہ اور انقلاب اسلامی کا اس کے لیے عملی جدوجہد کرنا اسرائیل اور امریکہ جیسی استعماری طاقتوں کو نہ کبھی پسند تھا اور نہ کبھی پسند ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ سمیت دنیا کا ہر ظالم شیعت اور ولایت فقیہ کے خلاف ہیں اور ان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔

اسرائیل کے بیان سے شیعہ کو اپنی حیثیت ، اہمیت اور نظام ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کی برکات کا اندازہ کر لینا چاہیے اور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہونا چاہیے انفرادی سطح سے خاندان، معاشرہ، ملک اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے اور اللّٰہ کا شکر بجا لاتے ہوئے تمام مسلمان معاشرے اور دیگر ادیان کے ماننے والوں کے لیے اپنے آپ کو احسن انداز میں قابل قبول بنانا چاہیے، اپنے اخلاقی پہلوؤں کی اصلاح کرنی چاہیئے، فرقہ واریت اور تعصب کو ترک کرتے ہوئے عدل و انصاف کا پیکر بننے کی کوشش کرنا چاہیے اسی میں شیعت کی شان و شوکت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عقیدہ مہدویت کو باریک بینی سے سمجھ کر اسے معاشرے میں عام کرنے اور اس کے عدل و انصاف سمیت تمام پہلوؤں کو احسن انداز میں تمام ادیان و مذاھب کے ماننے والوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے بالخصوص اہل سنت برادران کے سامنے مہدویت اور اس کی فیوض و برکات کو اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے قائل ہیں تاکہ اسرائیل سمیت عالمی استعماری قوتیں اس عالمی مہدوی انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جو منصوبہ بنائے بیٹھی اس میں انہیں منہ کی کھانا پڑے۔

ایک عاقل و باشعور شیعہ کو اسرائیل کے اقوام متحدہ میں اس بیان کے بعد ہر علاقے میں محتاط رہنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ عمومی گفتگو ، تحریر اور اعمال میں احتیاط برتتے ہوئے دوسروں کے مسلمہ مقدسات کا احترام کیا جائے اور فضول گوئی سے پرہیز کی جائے، اسلامی وحدت کو اعتدال پسند اہل سنت کے ساتھ ملکر فروغ دیا جائے مظلومین جہان کی مدد کے لیے مذہب اور مسلک سے بالا ہو کر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ کسی بھی جگہ شیعہ پر کسی کی توہین اور فرقہ واریت پھیلانے، بین المذاھب و مسالک ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کا الزام نہ لگ سکے۔ معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق شیعت کے حقیقی چہرہ کا تعارف کروانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے تاکہ شیعت کے خلاف صیہونیت کے عزائم ناکام ہوسکیں۔ واضح رہے اسرائیل نے یہ بیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے عالمی طاقتور فورم پر دیکر نہ صرف پوری دنیا کو شیعت اور نظام ولایت فقیہ کے خلاف کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ تکفیریت کو عالمی سطح پر ایک بار پھر آکسیجن دینے کی کوشش کی ایک کڑی ہے۔ یقیناً اس کے بعد صہیونیت عالمی سطح پر اس کے لیے عملی اقدامات بھی اٹھائے گی لہذا حد درجہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .