۱۲ تیر ۱۴۰۳ |۲۵ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jul 2, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ / قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا:پاکستان میں کوئی جمہوریت آداب سے آشنا ہی نہیں تو آئین کی بالادستی و قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو؟۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 30 جون عالمی یوم پارلیمان پر جاری اپنے بیان میں کہا: غور کیا جائے کہ کیا واقعی دنیا میں پارلیمانی و جمہوری روایات پنپ رہی ہیں یا پھر جمہوریت نما آمریت کو نافذ کیا گیاہے، مغربی دنیا سے مشرقی ممالک تک کہیں بھی صحیح معنوں میں جمہوری و انسانی حقوق یا روایات کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا: جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں نے ہمیشہ آمرانہ طرز حکومت، آمریت یا اسرائیل جیسی نام نہاد ظالم حکومتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیساتھ ان کی پشت پناہی کی ہے ، یہی سبب ہے کہ آج دنیا میں عام آدمی اس نظام سے لاتعلق ہوتاجارہاہے، پاکستان میں پارلیمانی جمہوری تصور سے آشنائی موجودنہیں، جو حشر پارلیمانی جمہوریت کے نام پر یہاں کیاگیااس کے مناظر برسرعام ہوچکے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا: دنیا میں جمہوری روایات کی بجائے دھونس، دھاندلی اور جمہوریت نما آمریت یا بعض ممالک میں زبردستی فوجی ڈکٹیٹر شپ کو نافذ کیاگیا ، تازہ ترین مثال بولیویاکی ہے جہاں کی عوام ظلم سے تنگ آکر باہر آئی۔ شرق سے غرب تک کہیں بھی صحیح معنوں میں جمہوری و انسانی حقوق یا روایات کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے ،عالمی سامراج اور اس کے نام نہاد حواری جمہوری پارلیمانی روایات کا نام صرف اپنے عزائم کی تکمیل کےلئے لیتے ہیں اسی لئے بعض ممالک میں فوجی آمریتوں، شخصی آمریتوں، نام نہاد جمہوری آمریتوں کی، کبھی مشرق وسطیٰ میں ناجائز ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرتے ہیں، کبھی فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ گراتے ہیں، کبھی افغانستان و عراق اور ویتنا م کو نشان عبرت بناتے ہیں مگر اقوام متحدہ فقط ایام مختص کرنے اور زبانی نصیحت تک ہی محدود رہتاہے ۔

انہوں نے پاکستان کی حالیہ صورتحال پر کہا: یہاں پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں سے آشنائی ناپید ہے، پارلیمانی جمہوری روایات سے نابلد ہیں تو کیسے پارلیمانی جمہوریت نافذ اور مضبوط ہوگی، گزشتہ چند دہائیوں میں پارلیمان کا جو حشر ہوا اس نے یہاں کی جمہوریت کی قلعی کھول کررکھ دی ہے کہ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر بعض سینئر پارلیمنٹرینز نوحہ کناں ہوئے کہ ”ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا تھا قوانین بن کر منظور ہوجائے، بعض اوقات مسودہ قانون ہی کسی اور طرف سے آتا تھا، اہم قانون سازی پر بھی کسی مداخلت کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا تھا“ ایسی صورتحال میں کیسے ملک میں حقیقی پارلیمانی جمہوریت مضبوط ہوگی اور کیونکر آئین کی بالادستی و قانون کی حکمرانی ہوگی، اس کےلئے پہلے خود احتسابی اور پھر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .