۱۶ تیر ۱۴۰۳ |۲۹ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jul 6, 2024
مجموعہ اشعار شہیدانِ خدمت

حوزہ/ شہدائے خدمت کی مجلسِ چہلم کے موقع پر پہلی کتاب ”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ کے عنوان سے منظر عام پر آ گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہدائے خدمت کی مجلسِ چہلم کے موقع پر پہلی کتاب ”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ کے عنوان سے منظر عام پر آ گئی ہے۔

”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ منظر عام پر

شہیدانِ خدمت کی شہادت کا جو واقعہ بیان ہو چکا ہے اس کی مختصر توضیح یہ ہے کہ حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام والمسلمین آل ہاشم، تبریز کے گورنر جناب مالک رحمتی، ایرانی صدر کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر میں صدر کے پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ سردار سید مہدی موسوی، حفاظتی گارڈ کے رکن، دو پائلٹ اور ایک ٹیکنیکل آفیسر اور حجت الاسلام والمسلمین رئیسی ان لوگوں کے ساتھ (آذربائیجان کے صدر الہام علی اف کی موجودگی میں) قیز قلعہ میں ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد کاپٹر کے ذریعے تبریز کیطرف واپس آتے ہوئے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا اور تبریز کے کسی پہاڑی علاقے میں گر گیا۔

اس غم کو برادشت کرنا بہت ہی سخت تھا مگر ہمیں تسلی کے لئے حدیث ملی کہ ''من مات علی حب آل محمد مات شھیدا'' جو آل محمّد علیہم السّلام کی محبت میں مرتا ہے وہ شہید مرتا ہے اور شہید قرآن کے کھلے الفاظ میں زندہ رہتا ہے، لہٰذا اگر زندہ رہنا ہے تو محمد وآل محمد علیہم السّلام کی محبت دل میں لیکر اٹھو، یہ ایک پیغام ہے، جسے شہیدانِ خدمت نے محب اہل بیت کو پیش کیا۔

ان تمام محب اہل بیت علیہم السّلام کے دنیا سے جانے کے بعد آج مجالسِ چہلم دنیا کے ہر گوشے وکنار میں منعقد ہو رہی ہیں، وہیں"مجلسِ چہلم کے موقع پر اولین کتاب بنام ”مجموعہ اشعار شہید خدمت“ کم مدت میں پیش ہورہی ہے۔

یاد رہے کہ یہ کتاب سید شمع محمد رضوی (شاعر طوس) "بانی و مؤسس قرآن وعترت فاؤنڈیشن علمی مرکز قم المقدسہ ایران کی کاوش ہے۔

”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ منظر عام پر

اس بات پہ توجہ نہایت ضروری ہے کہ! کتاب مجموعہ اشعار: یہ سنکر آپ کو بیحد تعجب ہوگا کہ مجموعہ اشعار کل ۱۴١٤ دن میں آمادہ ہو جانا ایک خاص لطف خداوند عالم ہے، جو الحمدللہ ۱۹۲ قطعات آمادہ ہوئے۔

یہ سچ ہے کہ قطعہ شاعری کا ایک صنف ہے جو چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، قطعہ کے لیے اشعار کی تعداد کی قید نہیں ہے۔ قطعہ میں دو سے زیادہ اشعار ہو سکتے ہیں، اس کے پہلے مصرعے میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے، لیکن دوسرے مصرعے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے، اس کے بعد اگر ردیف بھی لگا دی جائے تو مصنف کی مرضی ہے ورنہ ردیف کے بغیر بھی قطعہ کے اصول مکمل ہو جاتے ہیں، لیکن قافیہ ضروری ہے پہلے دو مصرعوں کے بعد تیسرا مصرعہ آتا ہے اس میں بھی قافیہ اور ردیف کی کوئی قید نہیں، لیکن چوتھے اور آخری مصرعے میں دوسرے مصرعے کا ہم آواز قافیہ ضروری ہوتا ہے۔

ضرورت:

شاعر طوس نے کہا کہ جیسا کہ مذکورہ مطالب سے واضح ہو چکا، شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کو سمیٹ کر مصرعے میں قافیہ وغیرہ کی عکاسی کا نام ہے۔ کوئی بھی انسان ہو وہ ہر سوچ میں گم رہتا ہے ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے، لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ شہید خدمت خصوصا شہید جمہور کے واقعات بھی کچھ اسی طرح ہیں کہ جب ان کے خیالات کو شاعری کی وادی میں قدرت کی تخلیق کردہ اشیاوں کے مشاہدے میں لے کر آگے بڑھا تو بہت سے تخلیقات بطور نظم سامنے آئیں جو قطعات کی شکل میں قوم وملت کے آنسو پونچھنے کے لئے ساری دنیا کے عزادار کی خدمت میں پیش ہے۔

خدا کرے یہ محنت رنگ لائے اور نشر کے اصلی ہدف کا تعارف ہوسکے اشعار کے سلسلے سے بہت عرق ریزی ہوئی ہے، لہٰذا دقت نظر مطلوب ہے۔

مجموعہ اشعار کی اس کتاب میں شاعر طوس نے بیان کیا کہ: میں گزارش کرتا ہوں ان لوگوں سے جو دوست حضرات اس بات کی تائید ہمیشہ کرتے ہیں کہ شاعرانہ قدرت جن میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، وہ اپنی کاوشوں کو فقط اسٹیج سے مخصوص نہ کریں۔ اردو قصیدہ نگاری اور قطعہ نگاری کے سلسلے سے دنیا کے پیاسوں کی پیاس بجھائیں۔

”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ منظر عام پر

”مجموعہ اشعار شہدائے خدمت“ منظر عام پر

تبصرہ ارسال

You are replying to: .