۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
پرچم فلسطین

حوزہ/ فلسطینی سنی ہو سکتے ہیں، لیکن آج کا فلسطین، واقعات کربلا کا آئینہ دار ہے۔ فلسطینی مجاہدین نے امام حسین (ع) سے لڑنے کا انداز سیکھا ہے، اسی لئے وہ آج استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں اور تمام تر تکالیف اور مصائب کے باوجود، اپنے تمام اہل خانہ، بیوی اور بچوں کی شہادت کے باوجود بھی کمزور نہیں ہوئے اور پیچھے نہیں ہٹے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام مصطفٰی محجوب نے (غزہ کے ساتھ مکتب حسینی کی مماثلت) کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا ہے، جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

بنیادی طور پر مزاحمت سے کیا مراد ہے اور یہ کن تحریکوں کی صورت میں نظر آتی ہے؟!

مزاحمت اس وقت ابھرتی ہے جب آپ ظلم و ظالم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی فوجی طاقت اس سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ مارے جائیں گے، لیکن خدا کی مدد و نصرت پر پختہ یقین کے ساتھ ثابت قدمی سے آپ اپنی تحریک جاری رکھیں، وہ تحریک جس کی نوعیت حملہ ہے، نہ صرف دفاع...

مزاحمت شیعیانِ حیدر کرّار علیہ السّلام کا مخصوص طریقہ ہے اور بظاہر پانی کی سمت کے خلاف تیرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ عموماً جب مزاحمت نہیں ہوتی تو خاموشی ہوتی ہے، جبکہ مزاحمت اس معمولی رویہ کے برعکس ہے۔

اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ یہ رویہ کہاں سے ابھرا؟!

بلا شبہ کہا جانا چاہیے؛ دنیا میں جہاں بھی مزاحمت ایجاد ہوتی ہے وہ مکتب حسینی علیہ السلام کی مقروض اور طالب علم ہے۔

ظلم کے مقابلے میں امام حسین (علیه السلام) کی حجت حضرت اکبر علیہ السّلام اور حضرت علی اصغر علیہ السّلام تھے کہ جو امام حسین (علیه السلام) کی مظلومیت کی واضح ترین دلیل ہے۔ ایسی مظلومیت کہ جس نے ظالم کی پستی اور سفاکیت کی نشان دہی کی اور پوری تاریخ میں ظلم کے خلاف عالمی بغاوت کا علم بلند کیا۔ ایسی مظلومیت کہ جس نے آغاز سے ہی دشمن کے لشکر میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا کہ عنقریب فوج یزید درہم برہم ہونے والی تھی کہ حرملہ کو حکم دیا گیا کہ کیوں بیٹھا ہے اٹھ اور۔۔۔۔

امام حسین(علیه السلام) کی مزاحمت کے بہت سے ثمر بخش نتائج سامنے آئے، جیسے:

- ظلم کا خاتمہ ہوا۔

- پوری دنیا میں لوگ جاگ گئے۔ ( و بذل مهجته فیک لیستنقذ عبادک . . . )

- جاہل ہوش میں آ گئے۔

- خاموش افراد بول اٹھے۔

- الٰہی نصرت نازل ہوئی۔ ( تجلی نام منصوره )

- انحرافات کی روک تھام ہوئی وغیرہ وغیرہ

فلسطینی عوام کی مزاحمت کے بھی بالکل ایسے ہی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ بعض اوقات غاصب اسرائیلی فوجی خودکشی کر لیتے ہیں۔ جنگی کابینہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ اسرائیل میں ہونے والے مظاہروں سے دنیا بیدار ہو رہی ہے، وغیرہ۔

ممکن ہے فلسطینی عوام کا تعلق اہل سنت مذہب سے ہو، لیکن آج فلسطین میں ہونے والے واقعات، ہوبہو واقعہ کربلا کا عکس ہیں۔ فلسطینیوں نے امام حسین علیہ السلام سے جنگی اصولوں کو سیکھا ہے، تبھی استقامت اور استحکام کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور تمام تر تکالیف اور مصائب کے باوجود، اپنے تمام اہل خانہ، بیوی اور بچوں کی شہادت کے باوجود بھی کمزور نہیں ہوئے اور پیچھے نہیں ہٹے، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ خدا کی مدد و نصرت ان کے شامل حال ضرور ہو گی اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ بیداری کی لہر پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔

اس لیے اگر ہم یہ کہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلنے اور ان کے مزاحمتی مکتب کا شاگرد ہونے کا مطلب طاقتور مزاحمت کا مکتب ہے تو یہ مکتب نہ صرف شیعہ اور سنی مین فرق نہیں رکھتا، بلکہ مسلمان اور غیر مسلم میں بھی کسی قسم کے فرق کا قائل نہیں ہے۔

اصل یہ ہے کہ انسان مزاحمت کے معنی کو سمجھے اور ظلم و بربریت کے خلاف مکتب حسینی علیہ السّلام کی پیروی کرتے ہوئے استقامت کا مظاہرہ کرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .