تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| واقعہ کربلا کے سب سے کمسن مجاہد و شہید حضرت علی اصغر علیہ السلام معمار کربلا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور حضرت رباب سلام اللہ علیہا کے فرزند تھے۔
روایات کے مطابق 28 رجب سن 60 ہجری کو امام حسین علیہ السلام اپنے اہل حرم اور خاص اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے۔ امام عالی مقام کے سفر سے کچھ دن قبل جناب علی اصغر علیہ السلام کی مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی اور چند دن کی عمر میں ہی آپ کاروان حسینی میں شامل ہوئے اور کربلا پہنچے۔
کربلا میں جب فوج شام نے پانی پر پابندی لگائی تو دوسرے شہیدوں اور اسیروں کی تشنگی میں آپؑ بھی شریک ہوئے۔ ظاہر ہے روز عاشورا جس نے جتنی جلدی جام شہادت نوش کیا اس کی تشنگی سیرابی میں بدل گئی اور جس کی شہادت جس قدر بعد میں ہوئی اسے اسی قدر مزید تشنگی کی اذیت برداشت کرنی پڑی۔ حضرت علی اصغر علیہ السلام کا شمار آخری شہداء میں ہوتا ہے تو آپؑ کی تشنگی بھی زیادہ دیر رہی ۔
حضرت علی اصغر علیہ السلام اگرچہ واقعہ کربلا کے سب سے کم سن شہید اور مجاہد ہیں لیکن آپؑ کی شہادت نے مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور حقانیت اور اسی طرح دشمنان اہل بیت کے ظلم و ستم اور قساوت و سنگدلی کو دنیا پر ظاہر کر دیا کہ بلا تفریق دین و مذہب اور بلا تفریق رنگ و نسل ہر وہ انسان جس کے سینے میں انسان کا دل ہے جب وہ آپؑ کی شہادت کو سنتا ہے تو وہ امام حسین علیہ السلام سے قریب ہوتا ہے اور یزید اور یزیدیت سے نفرت کرتا ہے۔
دنیا تصور نہیں کر سکتی کہ کوئی انسان اس کمسنی میں کسی کو کوئی درس دے سکتا ہے، لیکن سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے اس کمسن فرزند نے رہتی دنیا تک انسانوں کو وہ درس انسانیت و حریت دیا کہ اگر اس پر دنیا عمل کر لے تو سعادت مند اور خوش بخت ہو جائے۔ آپؑ کے عظیم دروس میں سے ایک درس غیرت ہے۔ چاہے وہ غیرت دینی ہو یا غیرت انسانی ہو۔
یہ غیرت ہی انسانیت کا خاصہ ہے، جس کے پاس غیرت نہیں اس کے پاس دین نہیں، جس کے پاس غیرت نہیں اس کے پاس انسانیت نہیں۔ وہ ظاہراً انسان تو ہے لیکن انسانیت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔
حضرت علی اصغر علیہ السلام نے رہتی دنیا تک غیرت کا درس دیا کہ تم چاہے جس سن وسال کے ہو تمہارے پاس غیرت ہونی چاہیے کہ اپنے امام وقت کو راضی و خوشنود کر لو اور ان کی ناراضگی اور غم و اندوہ کا سبب نہ بنو۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے زیارت ناحیہ مقدسہ میں آپؑ کو ان الفاظ سے سلام کیا۔ "اَلسَّلامُ عَلَى الرَّضِيْعِ الصَّغِيرِ" طفل شیر خوار پر سلام ہو۔
باب الحوائج حضرت علی اصغر علیہ السلام عظیم علماء و فقہاء کے کلام میں
1. مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ مصائب اور مرثیہ پڑھنے والوں کو نصیحت فرماتے کہ جتنا ممکن ہو حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کریں، خصوصاً ایام محرم میں خطباء و ذاکرین کو تاکید فرماتے کہ زیادہ سے زیادہ حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کریں۔ چونکہ مرحوم میرزائے شیرازی کا ماننا تھا کہ حضرت علی اصغر علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کی سند ہیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ حضرت علی اصغر علیہ السام نہ شمشیر اٹھا سکتے تھے، نہ کسی سے کچھ کہہ سکتے تھے اور نہ ہی اپنا دفاع کر سکتے تھے، اس سے بڑی اور کیا سند ہوگی کہ اس تاریک دنیا میں جو اپنی شہادت سے قیامت تک کے لئے اپنے والد کی مظلومیت کو واضح اور روشن کر دے۔
2. آیۃ اللہ العظمیٰ میرزائے قمی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں نقل ہوا ہے کہ جب بھی آپ کسی مشکل یا پریشانی میں گرفتار ہوتے تو حضرت علی اصغر علیہ السلام سے توسل کرتے تھے، آپ محرم کے عشرہ اولی میں خطباء و ذاکرین سے یہی مطالبہ کرتے کہ حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کریں۔
ایک خطیب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا، آقا کربلا میں دوسرے شہداء بھی ہیں جنہوں نے اپنی جان قربان کر کے امام حسین علیہ السلام کی نصرت فرمائی، میرزای قمی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: جانتا ہوں لیکن باقی شہداء میں سے ہر ایک نے جنگ کی یا کم از کم خود کا دفاع کیا لیکن حضرت علی اصغر علیہ السلام اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے تھے۔
3. مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ گلپایگانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مخصوص مصائب بیان کرنے والے جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس سے اندازہ ہو جاتا کہ آپ کو کوئی اہم مشکل یا حاجت در پیش ہے، کیونکہ وہ جب بھی مصائب بیان کرتے تو صرف حضرت علی اصغر علیہ السلام کے ہی مصائب بیان کرتے تھے۔
4. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد تقی بہجت رحمۃ اللّٰہ علیہ زائرین کربلا کو نصیحت فرماتے کہ امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں مختصر ہی سہی حضرت علی اصغر علیہ السلام کا ذکرمصیبت کریں۔
5. آیۃ اللہ العظمیٰ شاہ آبادی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کرنےکی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے، خود بھی مسجد میں شب جمعہ دعائے کمیل کے بعد حضرت علی اصغر علیہ السلام کا ذکر مصیبت فرماتے تھے۔
6. بانی حوزہ علمیہ قم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللّٰہ علیہ طلاب کو نصیحت کرتے کہ حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب پڑھیں، ان کا عقیدہ تھا کہ بہت سے مسائل اور مشکلات حضرت علی اصغر علیہ السلام سے توسل کے ذریعہ حل ہو سکتے ہیں۔ چونکہ انکا دستور تھا کہ ہر روز درس سے پہلے کوئی شاگرد مختصر مصائب بیان کرتا تھا، اس کے بعد آپ درس دیتے تھے۔ ایک بار آپ نے حکم دیا کہ اب آج سے صرف حضرت علی اصغر علیہ السلام کے ہی مصائب بیان ہوں جب تک کہ میں خود کچھ نہ کہوں ۔ لہذا آپ کے حکم کے مطابق تقریبا 70 یا 80 دن حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان ہوئے۔ کسی نے عرض کیا کہ آقا! اتنے دن سے صرف حضرت علی اصغر علیہ السلام کے ہی مصائب ہو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: پھر بھی کم بیان ہوا کیوں کہ یہ مصیبت بہت عظیم ہے۔
7. رہبر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای دام ظلہ نے بیان فرمایا: آقای الہی قمشہ ای مرحوم نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ان کے فرزند حسین آقا کمسنی، شیر خواری کے زمانے میں اس قدر مریض تھے کہ میں اس کی زندگی سے مایوس ہو گیا تھا، ہم نے نذر کی کہ اگر یہ بچہ صحت یاب ہو گیا تو امام حسین علیہ السلام کے لئے نظم کہیں گے، فکر میں تھے کہ کہاں سے شعر شروع کریں کہ ذہن میں حضرت علی اصغر علیہ السلام کی تشنگی کا خیال آیا تو سوچا اسی مصیبت کو نظم کریں گے، ساتھ ہی دیکھ رہا تھا کہ وہ بچہ آخری سانسیں لے رہا ہے تو خیال آیا کہ اس کی ماں یہ منظر نہ دیکھے لہذا انہیں چھت پر بھیج دیا کہ جاؤ دعا کرو ہم یہاں ہیں، چونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ پانی اور دودھ اس کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے یہ کئی دن کا بھوکا بھی تھا تو یہی سوچ کر کہ اب جب یہ ہم سے رخصت ہی ہو رہا ہے تو کم از کم پیاسا نہ جائے لہذا اس کے منہ میں چمچ سے پانی ڈالنے لگا چند قطرے پانی پڑے تو اس نے آنکھیں کھول دی تو میں نے اہلیہ کو آواز دی کہ اؤ بچے کو دودھ چاہیے وہ بھوکا ہے، اہلیہ یہ سمجھیں کہ شاید بچہ گزر گیا ہے یہ ہمیں اس طرح بلا رہے ہیں لیکن جب وہ آئیں تو دیکھا کہ بچہ بھوک سے گریہ کر رہا ہے اور اس کے بعد یہ بچہ صحتیاب ہو گیا اور انہوں نے وہ نظم بھی کہی۔
8. آیۃ اللہ حق شناس رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی لوگوں کو حضرت علی اصغر علیہ السلام کے مصائب بیان کرنے اور ان سے توسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
دیگر بہت سے علماء و فقہاء نے بیان فرمایا کہ جب بھی مشکل میں گرفتار ہوں تو حضرت علی اصغر علیہ السلام سے توسل کریں۔
خدایا! ہمیں اپنی ، اپنے رسول اور آل رسول علیہم السلام کی معرفت عطا فرما۔