۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
News ID: 401888
30 اگست 2024 - 06:37
زوال اسرائيل

حوزہ/ کچھ لوگوں کی منطق یہ ہے کہ اسرائیل سے ہم کیوں لڑیں؟ کیا ہم بےقوف ہیں؟ اس نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ کیا ہم پر کوئی حملہ کیا ہے؟۔۔۔۔  اس طرح کا جواب انسان کے غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور وہ ان باتوں کے ذریعہ وظائف دینی سے اپنا شانہ خالی کرنا چاہتے ہیں۔

تحریر: علامہ شیخ سکندر علی ناصری

حوزہ نیوز ایجنسی | اس وقت دنیا اسرائیل کی شکست اور زوال کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ جسے نصف صدی سے دنیا ناقابل شکست طاقت سمجھ رہی تھی۔ ہمارے معاشرے میں کچھ افراد ایسے ہیں جن کی آنکھوں پر اس وقت بھی پردے پڑے ہوئے ہیں کہ حقائق ان کی نگاہ میں پوشیدہ ہیں۔

یہ واقعیت اور حقیقت یا انہیں نظر نہ آتی، یا جان بوجھ کر من گھڑت شایعات سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔ چونکہ اکثر و بیشتر عوام ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پیچیدہ مسائل سے دور ہوتے ہیں تو ان مواقع پر استعماری لوگ ان کے اذہان کو مشوّش کرنے کی بڑی کوشش کرتے ہیں اور حد الامکان ہر میدان میں اسرائیل اور امریکہ کی کامیابی جلوہ دینے کی سعی کرتے ہیں جیسے کہ اگر آپ کو یاد ہو کہ جب جمہوری اسلامی ایران نے دمشق میں اپنے قونصلیٹ پر ہونے والے حملے کا وعدہ صادق کے ذریعے انتقام لیا تو بہت سے پریس میڈیا اور سوشل میڈیا نے یہی شور مچانا شروع کر دیا کہ اسرائیل کو تو کوئی معمولی خراش تک نہیں آئی ہے۔ اسی طرح آج جب حزب اللہ لبنان نے فواد شکر کے انتقام لینے کے لئے جب پہلی جوابی کاروائی کی تو یہ سب اس کو بھی ناکام جلوہ دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

محترم قارئین! فیصلہ آپ پر ہی چھوڑتا ہوں کہ جو بھی یہ کہہ رہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کاکچھ نہیں بگاڑا یا حزب اللہ کے حملے سے اس کو کچھ نقصان نہیں ہوا! یہ ایک الگ موضوع بحث ہے۔ میری ان لوگوں سے بہت مؤدبانہ عرض ہے کہ ایران، حشد الشعبی، حزب اللہ لبنان اور انصار اللہ یمن کے علاوہ دنیا کا کوئی مسلم اور غیر مسلم ملک،میزائل داغنا،ڈرونز سےحملہ کرنا یا اسرائیل کے کسی عام شخص پر گولی چلانا تو چھوڑیں،وہ صرف ایک پتھر اس کی طرف پھینک کر دکھائیں تا کہ لوگ اس کو جرأت کو مانیں!

ان کی یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست بھی مانیں تب بھی حزب اللہ کےمیزائل اسرائیل کے خلاف فائر ہونا حزب اللہ کی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس نے اس اربعین آپریشن کے ذریعہ یہ بتا دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ لڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی میدان میں کھڑا ہے۔

کچھ لوگوں کی منطق یہ ہے کہ اسرائیل سے ہم کیوں لڑیں؟ کیا ہم بےقوف ہیں اسنے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟کیا ہم پر کوئی حملہ کیا ہے؟ اس طرح کا جواب غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیتا ہے ان باتوں کے ذریعہ اپنے وظائف دینی سے شانہ خالی کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے یہی کہتا ہوں۔ کیا اسرائیل نے یمن پر حملہ کیا تھا؟ وہ اس وقت مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ان کے شانہ بہ شانہ کیوں کھڑے ہیں؟ کیا اسرائیل نے عراق پر حملہ کیا تھا؟ لیکن عراقی لوگ آج بےگناہ فلسطینی ماں بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس منطق جس فلسفہ کی تحت یہ لوگ ملت فلسطین کے حامی ہیں ہم بھی ان کے حامی بن سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ "تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں"۔ کیا کوئی شخص اپنے بھائی پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہتا ہے؟ یا اس کا حد الامکان دفاع کرتا ہے؟ کیا ملت فلسطین ہمارے دینی بھائی نہیں ہیں؟۔ اس وقت انسانی بنیادی تمام ضروریات غزہ کے مظلوم عوام پر بند ہیں۔ دس مہینے سے ملت فلسطین ہوائی، زمینی اور دریائی محاصرے میں ہے۔

حزب اللہ کے رد عمل کی خصوصیات کی پہلی بات یہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ "یہ انتقام کا پہلا مرحلہ ہے اگر اس جوابی کروائی کو ناکافی سمجھے تو ہمیں اس کمی کے جبران کا حق حاصل ہے اور ہم اس کے لئے مجدداً حملے کریں گے"۔ اور اس حملے میں انہوں نے صرف راکٹ استعمال کیا ہے، کروز اور بلاسٹک مزائل کا استفادہ نہیں کیا۔

ابھی ایران اور انصار اللہ یمن کا جواب آنا باقی ہے۔ اب تو یمن کا جواب کا وقت پہنچ گیاہے اس کا جواب کیسا ہوگا؟ حساب شدہ ہوگا یا قواعد و ضوابط سے بالاتر ہوگا یا ان کا حملہ، جنگ منطقہ کا باعث ہوگا، یہ سب ابھی مبہم ہے۔ لیکن یمن کے وزیر دفاع محمد عاطفی نے اسرائیل کے حساس اور حیاتی مقامات ان کے زیر نظر ہونے اور انہیں پوری دقت اور آمادگی کے ساتھ نشانہ بنانے کے لئے پوری طرح تیار ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جواب آنا یقینی اور حتمی ہے اور اس انتقام کی نوعیت اور شدت و ضعف فلسطین میں جنگ بندی پر مثبت آثار مرتب کریں گے۔

تمام محور مقاومت کایک دفعہ جواب نہ دینے کا ایک ہدف بھی یہی ہے کہ ان کا رد عمل جنگ بندی پر اثرانداز ہو۔۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس حملے میں 320 راکٹ فائر ہوئے اور اسی دوران 200 سے زیادہ ڈرونز اندر پہنچائے گئے جنہوں نے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔اسرائیل ہر نوع کےحملے کو روکنے کے لئے پوری طرح چوکس تھا۔ ایسا نہیں کہ غافل گیرانہ اس پر حملہ ہوا ہو۔ تقریبا 25 دن تک اسرائیل اس انتقامی حملہ کو ناکام بنانے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔ اس کے ساتھ امریکہ بھی الرٹ تھا تا کہ حملہ کو ناکام بناسکے۔ اس کے باوجود حزب اللہ کے راکٹوں نے اپنے تمام اہداف کو نشانہ بنایا اور اسرائیل اور امریکہ دونوں ان میزائلز کو روکنے میں ناکام رہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے بہت حساس امنیتی، اطلاعاتی، اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے اہم گیارہ اسٹراٹیجک مقامات کو نشانہ بنایا خصوصا تل ابیب میں 8200 گیلیوٹ کو نشانہ بنایا یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔اس فوجی اڈاہ میں موساد کے بڑے بڑے افسران ہوتے ہیں تمام دفاعی برناموں کا کنٹرول اس اڈاہ سے کیاجاتا ہے تمام اطلاعاتی کام اسی اڈاہ پر ہوتا ہے۔اربعین اپریشن کا اہم اھداف میں سے ایک وہی گیلیوٹ فوجی اڈاہ تھا اس بیس پر 8200 جاسوسی شعبے ہیں اور اس اڈاہ کا اہم ھدف قاتلانہ کروائی کا انتظام ہے اور یہ اڈاہ تل ابیب سے 5۔1کلومیڑ فاصلہ پر واقع ہے یعنی قلب اسرائیل میں ہے وہاں تک حزب اللہ کا ڈرونز پہنچنا اور اس کو پوری طرح منھدم کرنا بڑا معنی رکھتا ہے۔ اس بیس پر ایسا پیشرفتہ نظام نصب ہے کہ اگر 300 کیلو میٹرز دور سے کوئی حرکت ہوتی ہے تو وہاں کے ریڈار سیسٹم اس کا سگنل دیتا ہے۔ ان تمام پیشرفتہ امکانات کے اور پوری طرح سے امدہ ہونے کے باوجود، حزب اللہ کے جوانوں نے اربعین اپریشن کے زریعے اسے ھدف بنایا اور اسرائیل اس کے سامنے بےبس رہا۔

چوتھی بات یہ ہے کہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے شعلہ جنگ کو بھڑکانے کے بجائے ایک ایسا انتقام لیا کہ اسرائیل کے ھدف کو خاک میں ملا دیا اس کی ایک کوشش یہی رہی کہ جنگ غزہ ادامہ رہے۔ اور اس کی دوسری کوشش یہ تھی کہ جنگ پھیل جائے تاکہ ایران کو بھی جنگ میں لاسکے لیکن حزب اللہ نے بلکل ہوشیاری سے کام کیا جسے اسرائیل کی یہ سازشیں ناکام رہیں۔۔۔نصف سال سے انصار اللہ یمن نے امریکہ فرانس برطانیہ جرمن کو دریای سرخ میں واضح شکست سے دوچار کردیا ہے اب تک انصار اللہ یمن کے مطابق 180 کامیاب اپریشن ان ممالک کے خلاف انجام دیا۔ دسمبر 2023 میں ان ممالک نے اپنے اپاس کے صلاح مشورے سے بین الاقوامی ایک اتحاد قائم کیا جس کا مقصد دریائی سرخ میں امد و رفت کو تمام خطرات سے محفوظ کرنا تھا لیکن انصار اللہ یمن کی ہوشیاری اور زیریکی نے ان کا یہ کام ناکام بنایا اور انصار اللہ نے اعلان کیا۔ کوئی بھی کشتی اسرائیل کو مدد رسانی کے قصد سے جاے گی کشتی ہمارے مورد حملہ واقع ہوگی۔ دوسری تمام کشتیاں امان میں ہیں وہ اپنا سفر جاری رہ سکتی ہیں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں۔

اب تک انصار اللہ یمن اپنی اسی بات پر ثابت قدم ہے اسرائیل کو جانے والی تمام کشتیاں مورد حملہ واقع ہوئی ہیں اور آیندہ بھی ہوں گی۔ صرف یہ نہیں بلکہ آہستہ آہستہ وہ اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور پیشرفت اسلحوں کو مورد استفادہ بھی قرار دے رہی ہے آج آپ دیکھیں ان کے حملے میں تیزی بھی دیکھنے میں آئی ہے اور حملے کی نوعیت میں پیشرفت دیکھی جاسکتی ہے۔ڈرونز،کروز مزائل کا استعمال ہے۔اس کے علاوہ کشتی سے فائر ہونے والے سبک مزائل کا استعمال بھی ہے۔

یہ در حقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ایک خطرہ کا پیغام ہے اور ان تمام حملوں کے مقابل میں یہ ممالک مغلوب ہو چکے ہیں اگر چہ شکست کا اعتراف نہیں کرتے ہیں لیکن سناریو سے پتہ چلتا ہے کہ انصار اللہ کے سامنے یہ سارے بےبس ہیں۔اطراف جوار میں ان ممالک کے فوجی اڈے ہیں تمام تر کوششوں سے انصار اللہ کو مٹانے کی کوشش کی لیکن نامراد رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ اور اسرائیل نے اپنے بہترین، ماہرین، پختہ کار، تجربہ کار ،اعلی قسم کے نظامی افراد، جن کی تعداد 80 تک بتاتی ہے، کو خفیہ مشن پر یمن بھیجے گے تھے کافی عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان افراد کا اب تک کچھ پتہ نہیں۔ یہ افراد یمن میں داخل ہونے کے بعد گم ہوگئے ہیں ناپید ہوگئے ہیں امریکہ اور اسرائیل اب تک اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ روس کو اس کا علم ہوا اس نے اس خفیہ مشن اور ان افراد کا پورا ڈیٹا انصار اللہ یمن کے ساتھ شئیر کیا ہے لہذا ممکن ہے یہ سب مارے گے ہوں یا انصار اللہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ہوں۔ اس بات کی تصدیق یوکرائین اور روس کے حالیہ گشیدگی سے معلوم ہوتی ہے کہ اخری ان دنوں میں تمام یورپین ممالک اور ناتو سمیت نے اوکرائین کے زریعے روس پر حملے کروایا۔ جدید اسلحوں سے حملہ ہوا جس کے نتیجے میں روس کو کروسک منطقہ سے عقب نشینی کرنی پڑی۔ در حقیقت روس کو اس اطلاعات کے شئیر کرنے پر ان کی طرف سے دی ہوئی یہ ایک سزا تھی۔

حزب اللہ کے خلاف ایک پروپگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ سیز فائر کے لئے اس انتقام سے دست بردار ہونا چاہئے تھا یا اس انتقام کی وجہ سے آتش بس معطل ہوا ۔ یہ سوچ بالکل بے منطق اور بے اساس ہے کیونکہ سیز فائر کے معاہدہ کو اسرائیل ہی نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے توڑا۔ پہلے تمام نکات پر اتفاق ہو چکا تھا اور اس معاہدہ پر عمل درآمد ہوتا تو اسرائیل کی شکست یقینی اور حتمی تھی۔ اس لئے نیتن یاہو اور اس کے کابینہ نے تہران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا اور اس اتش بس کے معاہدے کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی۔ جس نے سب سے پہلے آتش بس مسودہ کو توڑا ہے وہ اسرائیل ہے نہ کوئی دوسرا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .