۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
News ID: 398385
24 اپریل 2024 - 23:48
ایران کا حملہ یا انتباہ !

حوزہ/ ایران کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیاہے ۔اب تک اسرائیلی حماس اور حزب اللہ سے عاجز تھے کیونکہ غزہ اور لبنان اسرائیلی سرحدوں پر واقع ہیں ۔انہیں ایران کے براہ راست حملے کی توقع نہیں تھی ۔انہیں اسرائیل کے دفاعی نظام اور اپنی فوج کے بلند بانگ دعووئوں پر بہت اعتمادتھالیکن ایران نے ان کے بھرم کو پاش پاش کردیا۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی | 14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر انتباہی حملہ کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا۔دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ نہ کرکے اس کے کسی قونصل خانہ کو نشانہ بنائے گا،جس طرح اسرائیل نے براہ راست ایران پر حملہ نہ کرکے دمشق میں موجود اس کے قونصل خانہ پر حملہ کیاتھا۔ایران نے یہ حملہ اندھیرے میں نہیں کیا بلکہ دشمن کو آگاہ کرکے اسکی پوری توانائی کو ناکام بناتے ہوئے کیا۔جس وقت اسرائیل کی اتحادی فوجیں اسرائیلی فضائی حدود کا محاصرہ کئے ہوئے تھیں ،ایران نے حملہ کرکے یہ ثابت کردیاکہ وہ نیٹو افواج کی طاقت سے خوف زدہ نہیں ہے ۔البتہ بعض اس حملے کی تعریف کررہے ہیں اور بعض تنقید ۔اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے مجموعی طورپر تقریباً ایک سو ستّر ڈرونز ،تیس سے زائد کروز میزائل اور ایک سو بیس سے زائد بیلسٹک میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب فائر کئے ۔ایرانی ڈرونز اور میزائیلوں کو نیٹو افواج نے مشترکہ طورپر روکنے کی کوشش کی جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اگر نیٹو افواج کی حمایت حاصل نہ ہوتو اسرائیل کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے۔اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مطابق انہوں نے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائیلوں کو تباہ کردیالیکن وہ بھی اس بات کا اقرارکرتے ہیں کہ ایرانی میزائیلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈیوڈ ہگاری نے اپنے بیان میں کہاکہ ایران نے اسرائیل کی طرف ۱۷۰ ڈرونز اور ۳۰ کروز میزائل داغے جن کو اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیلی فضائی حدود میں پہونچنے سے پہلے تباہ کردیا۔ان میں سےبعض نے نوواٹیم ائیر بیس کو نشانہ بنایا ،جس کے نتیجے میں اس ائیربیس کو معمولی نقصان پہونچا۔ظاہر ہے اسرائیل کبھی اپنے نقصان کی صحیح معلومات فراہم نہیں کرے گا،جیساکہ حماس کے حملوں میں ہوئے نقصان کی صحیح معلومات کو مسلسل چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اسرائیل نے میڈیا کو بھی محدود پیمانے پر کوریج کی اجازت دے رکھی ہے ،جس کے نتیجے میں اسرائیل کو ہونے والے نقصان کی صحیح جانکاری نہیں ہوپاتی۔اس لئے حماس ،حزب اللہ ،انصار اللہ اور ایران کے حملے میں ہوئے نقصان کا صحیح تخمینہ نہیں لگایاجاسکتا۔ایک امریکی چینل ’اے بی سی‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیاکہ ایران کے کم از کم ۹ میزائیلوں نے دواسرائیلی ائیربیس کو نشانہ بنایا جس میں تل ابیب کو کافی نقصان پہونچا۔اس چینل کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اعتراف کیاہے کہ ۴ ایرانی بیلسٹک میزائیلوں نے نیگیو ائیربیس کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ۵ مزید میزائیل ناواٹیم ائیربیس پر گرے جس کے نتیجے میں ایک c-130 ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہوا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ ایران نے کم از کم ۹ میزائیل داغے اور ان میزائیلوں نے دوفضائی اڈوں کو نشانہ بنایا اور کافی نقصان پہونچایا۔ایرانی فوج کے ترجمان نے بھی اس بات کا اعلان کیاہے کہ ان کا مقصد شہروں یا عوامی مقامات کو نشانہ بنانا نہیں تھابلکہ اسرائیلی فوجی مراکز کو ہدف بنایا گیا تھا،جس میں انہیں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔خاص طورپر اس ائیربیس کو نشانہ بنایا گیاتھا جس کے ذریعہ دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ ہواتھا۔

بعض وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایرانی حملے کو ناکام بنادیا گیا اور ایران نے انتہائی کم درجے کے میزائیل اور ڈرونز استعمال کئے ہیں ،انہیں معلوم ہوناچاہے کہ کم ازکم کسی ملک نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرأت کا مظاہرہ تو کیا۔اس سے پہلے ایران نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی ائیربیس پر حملہ کرکے یہ بتلادیاتھاکہ خطے میں امریکی فوجی مراکز محفوظ نہیں ہیں ۔جب کہ اس وقت بھی یہ کہاگیاتھاکہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیاہے ،اس لئے زیادہ نقصان نہیں پہونچا۔جب کہ عین الاسد ائیربیس اور دیگر فوجی مراکز کی سیٹلائٹ تصویروں نے حقیقت کو بے نقاب کردیاتھا ۔یہی صورتحال اسرائیل پر حملے کے بعد معرض وجود میں آئی ۔ناقدین کا یہ کہنا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیاہے ،اس لئے اس حملے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟اول تو ان کے دعوے بغیر دلیل کے ہوتے ہیں ۔اور بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ ایران نے اطلاع دے کر حملہ کیاہے تو کیا اس حملے کو حملہ نہیں مانا جائے گا؟یہ اطلاع امریکہ کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے نہیں تھی ،جس کی طرف ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کےاجلاس میں بھی اشارہ کیا۔بعض کا یہ کہنا کہ یہ حملہ ایران نے اپنے قونصل خانہ پر ہوئے حملے کے جواب میں کیاتھا،اس کا فلسطین کے دفاع ،بیت المقدس کی بازیابی اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے ۔کیا وہ بتلاسکتے ہیں کہ دمشق میں موجود ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیل نے حملہ کیوں کیا تھا؟اگر وہ اس سوال کا صحیح جواب تلاش کرلیں گے تو معلوم ہوجائے گاکہ ایران کے قونصل خانہ پر اسرائیل کا حملہ غزہ کی حمایت کی بنیاد پر تھا۔غزہ میں حماس کی مقاومت ،لبنان کی سرحدوں پر حزب اللہ کی جانفشانی ،بحر احمر میں حوثیوں کی دلیرانہ کاروائیاں اور شام و عراق میں مزاحمتی گروپوں کی استقامت، تنہا ایران کی مرہون منت ہے ۔حماس اورمزاحمتی محاذ علیٰ الاعلان ایران کی حمایت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن جو لوگ حقیقت کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ اب بھی مسلکی عناد کے بھنور میں الجھے ہوئے ہیں ۔جبکہ وہ اردن اور دیگر نام نہاد مسلمان ملکوں کی مذمت نہیں کرتے جنہوں نے ایرانی حملوں کوروکنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا۔

ایران کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیاہے ۔اب تک اسرائیلی حماس اور حزب اللہ سے عاجز تھے کیونکہ غزہ اور لبنان اسرائیلی سرحدوں پر واقع ہیں ۔انہیں ایران کے براہ راست حملے کی توقع نہیں تھی ۔انہیں اسرائیل کے دفاعی نظام اور اپنی فوج کے بلند بانگ دعووئوں پر بہت اعتمادتھالیکن ایران نے ان کے بھرم کو پاش پاش کردیا۔اس وقت اسرائیل داخلی انتشار کا شکار ہے اور اس کے شہری اپنی فوج اور حکومت پر عدم اطمینان میں مبتلا ہیں ۔اس کو بھی ایران کی نمایاں کامیابی تصور کرنا چاہیے کہ اس نے اسرائیل کے سیاسی اور سماجی بحران میں مزید اضافہ کردیاہے ۔کیونکہ اب تک اسرائیل اپنے جاسوسوں کے ذریعہ ایران میں داخلی انتشار کوفروغ دیتارہاہے ،ایساپہلی بار ہواہے کہ جب اسرائیل کے شہری اپنی فوج کی طاقت اور حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔انہیں باور کرادیاگیاہے کہ اب اسرائیل ان کے لئے محفوظ نہیں ہے ۔جس طرح فلسطین کو اسکے شہریوں کے لئے غیر محفوظ بنادیاگیابالکل وہی صورتحال اسرائیل میں رونما ہوچکی ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہاکہ ایران کا حملہ اندھا دھند اور انتہائی خطرناک تھا۔جبکہ ابتدامیں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک بالکل برعکس بیان دےرہے تھے ۔یہ تمام بیانات اور صورت حال اسرائیلی شہریوں کے سامنے ہے ۔اگر ایران کا حملہ کمزور اور ناکام ہوتا تو اسرائیل کے اتحادی ممالک کب کا ایران پر حملے کا فیصلہ کرچکے ہوتے ،اس بات کو دنیاسے زیادہ اسرائیلی شہری سمجھ رہے ہیں۔

آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کا یہ حملہ اسرائیل کے لئے ایک انتباہ تھا۔ایران نے یہ ثابت کردیاکہ وہ اسرائیل کے فضائی حدود کو بھید سکتاہے اور مختلف سمتوں سے اسرائیل پر حملہ ور ہوسکتاہے ۔اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیاکہ اسرائیل کسی بھی سطح پر محفوظ نہیں ہے ۔اب تک یہ بھی سوال کیاجاتاتھاکہ کیاایران اسرائیل پر براہ راست حملہ کرسکتاہے ؟اس نے عالمی طاقتوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا اور حملہ کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو واضح انتباہ بھی ۔کیونکہ ایران کے حملوں کے روکنے کے لئے امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،اردن اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج نے اپنی پوری طاقت کااستعمال کیا۔یعنی اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسرائیل اپنے بوتے پر ایرانی حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتاتھا،اس لئے اس کے تمام اتحادیوں نے مل کر اسرائیل کا دفاع کیا۔دوسرے ایران نے اپنے سستے اور سست ڈرونز کا استعمال کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو زیادہ نقصان پہونچایا۔رپورٹ کے مطابق تنہا اسرائیل کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہواجس کی بنیاد پر اس کے اقتصادی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔اس کے علاوہ جو میزائیل ایران نے داغے ،وہ بھی جدیدترین میزائل نہیں تھے ،کیونکہ انتباہی حملے میں اپنی پوری توانائی کا اظہار نہیں کیاجاتاہے۔حماس جس نے بہت پہلے اسرائیلی دفاعی نظام کی پول کھول دی تھی،ایران نے مختلف سمتوں سے حملہ کرکے اس کے اتحادیوں کوہائی الرٹ پر کردیا۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام اتحادیوں نے متفقہ طورپر اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی کاروائی کرنے سے منع کیا،کیونکہ اس کے نتائج سنگین ثابت ہوں گے ،جس کا اندازہ اسرائیل سے زیادہ اس کے اتحادیوں کوہے ۔کیونکہ جب امریکہ ،برطانیہ اور فرانس جیسے ملک مل کر ایران کے سستے ڈرونز اور میزائیلوں کو اسرائیل پہونچنے سے نہیں روک سکے ،توپھراندازہ کیجیے جب ایران اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ ور ہوگا ،توانجام کیاہوگا!

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .