۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
1

حوزہ/ اسرائیل کے خلاف ایران کے جوابی حملے کے اختتام کے بعد جنگ کے ماہرین نے اس جنگ کی جہت اور نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عسکری تجزیہ کار جن چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ان میں سے ایک اسرائیل کے دفاعی نظام کی کمزوریوں اور طاقتوں کا مسئلہ ہے، 13 اپریل کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر ایران کے حملوں میں آئرن ڈوم کی کمزوریوں کا پردہ فاش ہوا، جس میں کئی ایرانی ڈرون اور میزائل اسرائیل کی دفاعی سسٹم سے گزرے، اب فوجی تجزیہ کاروں نے اس مسئلے کی وجہ اور مستقبل کی ممکنہ جنگوں میں اسرائیل کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا ہے۔

اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ، ایسا زخم جو کبھی بھرنے والا نہیں:

صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی کارکردگی کے حوالے سے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے بیانات نے بڑی مغربی طاقتوں کی مدد نہ ہونے کی صورت میں ایران کے حملے اور فلسطینی مزاحمت کے حملوں سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کی صلاحیتوں پر شکوک پیدا کر دیے ہیں، اولمرٹ نے ایک بیان میں کہا: "اسرائیلی فوج دوسرے ممالک (اس کے اتحادیوں) کی مدد کے بغیر ایران کے 75 فیصد سے زیادہ اہداف کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی"۔ کرنل حاتم کریم الفلاحی جو کہ فوجی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر ہیں، ان کے مطابق اس تبصرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

"حاتم کریم الفلاحی" کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل تک و تنہا ایران کے 75 فیصد ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کرنے کے قابل نہیں تھا، لیکن اس فوجی تجزیہ کار نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل ایران کے سامنے تنہا ہے، اس وجہ سے وہ ایران کے ساتھ بڑی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

الجزیرہ کے مطابق، ایران نے گزشتہ جمعے کی صبح اعلان کیا کہ اصفہان کے اوپر آسمان پر دھماکے ہوئے ہیں اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کے خلاف کوئی میزائل حملہ نہیں ہوا اور ملک کی حساس تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ادھر امریکی میڈیا نے اس ملک کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ 13 اپریل کو اسرائیل نے ایران کے جوابی حملے کے جواب میں اصفہان پر حملہ کیا تھا۔

حاتم کریم الفلاحی کے تجزیے کے مطابق ایران کے حملے سے اسرائیلی فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جن میں اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوری اور آئرن ڈوم کی کمزوری بھی شامل ہے، آئرن ڈوم غزہ سے داغے گئے راکٹوں سے نمٹنے کےبھی قابل نہیں۔

اس حوالے سے فلاحی کا مزید کہنا ہے کہ "اسرائیل نے اپنے تین بڑے اتحادیوں، امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے مدد لی ہے اور ان کی مدد کے بغیر ان میزائلوں کو مار گرایا بھی نہیں جا سکتا" 25 فیصد راکٹ مقبوضہ علاقوں کی طرف داغے گئے۔

حالیہ حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟

فلاحی کے مطابق اسرائیل کے پاس تین فضائی دفاعی نظام ہیں: آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور ایرو، ان کے علاوہ صیہونی حکومت کے پاس انٹرسیپٹر طیارے اور مختلف فضائی دفاعی ہتھیار ہیں جو دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے لیے موثر ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم یہ قابل ذکر سازوسامان ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور میزائل اور ڈرون اسرائیل کی دفاعی لائنوں میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے۔

الجزیرہ کے عسکری اور تزویراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے میں اپنے جدید ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا اور صرف اپنے پرانے ہتھیاروں کا استعمال کیا اور ان میں سے بہت سے ڈرون کم رفتار اور کھلے عام دشمن کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجے گئے۔

قابل غور ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے 13 اپریل کو اسرائیل کو نشانہ بنانے والے ایرانی میزائلوں اور ڈرونوں کو مار گرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور تل ابیب کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا، تاہم اعلان کیا تھا کہ وہ اس علاقے میں کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتے۔ الجزیرہ کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر کوئج ایسی جنگ ہوئی جس میں صرف ایران اور اسرائیل شامل ہوں اور دوسرے ممالک کی دخالت نہ ہو تو صیہونی حکومت کو کوئی موقع نہیں ملے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .