حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس خبرگان رہبری کے رکن حجۃ الاسلام والمسلمین صلح میرزائی نے آپریشن ’’وعدہ صادق‘‘ کے متعلق شبہات کا جواب دیتے ہوئے کہا:ہمیشہ سے ہی حق باطل کے درمیان جنگ جاری رہی ہے، اور جب باطل کے حملے پر حق جواب نہ دے اور اس جواب نہ دینے سے باطل اور جری ہو جائے تو حق پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ باطل کے حملے کا جواب دے۔
انہوں نے کہا: سب کو معلوم ہے کہ 1967 کے میں جب چھ روزہ جنگ ہوئی، تو کسی بھی حکومت نے اسرائیل پر براہِ راست حملہ نہیں کیا، جب کہ شام پر اسرائیل کی جانب سے بارہا بمباری کی گئی لیکن پھر بھی شام نے براہ راست اسرائیل پر حملہ نہیں کیا، مزاحمتی گروپ بھی جو حملہ کر رہے تھے اس پر کسی حکومت کا عنوان نہیں تھا بلکہ خود مختار ہو کر مستقل طور پر حملے کر رہے تھے، لہذا ایران نے براہ راست حملہ کر کے اس سنت کو توڑا اور اسرائیل کے اس غرور کو خاک میں ملا دیا کہ ان پر کوئی براہ راست حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
انہوں نے مزید کہا: وہ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ان تمام میزائلوں کو روک دیا جائے گا، لیکن دیکھا گیا کہ اسلامی جمہوریہ نے ان مراکز پر حملہ کیا جہاں عام شہری موجود نہیں تھے اور ان مقامات میں سے ایک وہی ایئربیس تھا جہاں سے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرنے والے طیاروں نے اڑان بھری تھی۔
حجۃ الاسلام والمسلمین صلح میرزائی نے مزید کہا:ایران نے جب اسرائیل کو جواب دینے میں تاخیر کی تو اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی گئیں، مثال کے طور پر بعض لوگوں نے کہا کہ شاید اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے شہر اربیل میں دہشت گردوں کے اجتماع کی جگہوں پر میزائل سے حملہ کرنا چاہتا ہے، کچھ اس طرح کی اور بھی قیاس آرائیاں تھیں۔
مجلس خبرگان رہبری کے رکن نے مزید کہا:دمشق میں حملے کے فوری بعد ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا اور صیہونی حکومت کی اس گستاخی کا بدلہ لینا حتمی طے پایا، لیکن یہ حملہ محض فوجی کمانڈروں کا کام نہیں تھا کہ وہ بیٹھ کر طے کر لیں اور حملہ کر دیں، بلکہ اس معاملے میں ڈپلومیسی اور فیلڈ دونوں ہی میدانوں میں گفتگو کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا : صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوریہ کے ردعمل میں تاخیر اس لئے کی گئی تا کہ ایرانی عوام اس حملے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں، دوسری طرف اس تاخیر سے صہیونیوں کے ذہنوں ایک خوف طاری ہو گیا کہ کب حملہ ہو گا؟ اور اس تاخیر کی وجہ سے اسرائیلی سیاست دانوں کے درمیان اندرونی تناؤ بڑھ گیا۔