۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 403333
13 اکتوبر 2024 - 19:55
پاراچنار

حوزہ/ پچھلے تین سالوں میں درجنوں وارداتیں ہوئی ہیں، جن میں سب سے زیادہ ٹارگٹ شیعہ افراد بنے ہیں۔ نہ صرف شیعہ، بلکہ اہل سنت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی ایک فرد کو بھی سزا نہیں ملی۔

تحریر: زہرا طوری

حوزہ نیوز ایجنسی | ضلع کرم پاراچنار میں سڑکوں پر ہونے والے وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کبھی یہ واقعات حکومت کی نگرانی میں پیش آتے ہیں اور کبھی عام حالات میں۔ پچھلے تین سالوں میں درجنوں وارداتیں ہوئی ہیں، جن میں سب سے زیادہ ٹارگٹ شیعہ افراد بنے ہیں۔ نہ صرف شیعہ، بلکہ اہل سنت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی ایک فرد کو بھی سزا نہیں ملی۔

پچھلے کئی سالوں سے بالش خیل سے لے کر چھپری اور تری منگل تک، جن سڑکوں پر یہ واقعات پیش آئے ہیں، وہاں اصل مجرم آج تک کسی کی حراست میں نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز سڑکوں پر قتل و غارت جاری ہے۔ کبھی بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی خواتین کو، اور کبھی عام شہریوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، اور اساتذہ کو۔

آج بھی حکومت کے زیر نگرانی ایک قافلے پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 15 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس بدامنی کے واقعے پر سب رنجیدہ ہیں، لیکن اگر ہم ڈیٹا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاراچنار میں اہل تشیع کے لوگوں پر اب تک 200 سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں 300 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں سرکاری افراد بھی شامل ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد کی ہلاکت کے باوجود حکومت علاقے میں امن قائم کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ اصل مجرموں کی جگہ بے گناہ شہریوں کو کیوں حراست میں لیا جاتا ہے؟ شیعہ اور سنی حضرات ہمیشہ ان واقعات کے شکار ہوتے ہیں، اور جو بھی قتل کرتا ہے، دونوں فریقین کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ سڑک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط معاہدہ کریں اور حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیں، ورنہ معصوم شہری مرتے رہیں گے۔ آج آپ کی باری، کل کسی اور کی باری، یعنی باری باری سب کی باری۔

جب تک شیعہ اور سنی مل کر اس نتیجے پر نہیں پہنچتے کہ ہمیں قتل کون کر رہا ہے اور ہمیں کون لڑوایا جا رہا ہے، یقین کریں کہ نہ تو علاقے میں امن قائم ہو سکے گا اور نہ ہی سڑکیں محفوظ ہوں گی۔ یہ جھڑپیں جاری رہیں گی، اور یہ وارداتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ سب اپنی باری کا انتظار کریں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .