۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
News ID: 403505
19 اکتوبر 2024 - 09:59
مولانا گلزار جعفری

حوزہ/ سوشل میڈیا کا استعمال اگر اخلاق و تقویٰ کے ساتھ ہو تو یہ ایک نعمت ہے، لیکن بداخلاقی اور بے ایمانی کے ساتھ استعمال ایک مصیبت بن جاتی ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | خالقِ فطرت نے انسانی وجود میں وہ تمام صفاتِ جمال و جلال رکھے ہیں جن کی ضرورت اس کی فطرت کے متقاضی تھی۔ انسانی عادات و اطوار میں یہ بات ودیعت کی گئی ہے کہ وہ نقصان سے بچتا ہے اور نفع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنی سہولت کے لیے اس نے آلات و مشینیں بنائیں تاکہ ان سے استفادہ کیا جا سکے۔ ان میں سے ایک برقی ترقی ہے جس کی رفتار مثلِ براق ہے، مگر اس کے استعمال کے اصول و ضوابط کو عقل و خرد کے ترازو پر پرکھنا ضروری ہے۔ جیسے ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں، اسی طرح اس کے استعمال اور سوء استعمال کے پہلو بھی ہیں۔ تلوار اگر حق کے لیے استعمال ہو تو حسنِ استعمال ہے، مگر یہی تلوار اگر باطل کے لیے بے گناہوں کے سر قلم کرنے کے لیے استعمال ہو تو یہ سوء استعمال ہے۔ سوشل میڈیا اور اس کے ایپس بھی اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔ ان کے استعمال میں اخلاق و تقویٰ کی پاسداری نعمت ہے، جبکہ بداخلاقی اور بے ایمانی کے ساتھ استعمال ایک مصیبت ہے۔

"سوشل میڈیا چاہے تو لمحوں میں گمنام شخصیات کو شہرت کے بام پر پہنچا دے، اور چاہے تو بامِ شہرت پر موجود شخصیات کی لغزشوں کو بدنامی کے کنویں میں ڈھکیل دے۔

یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ کچھ چیزیں استعمال سے ختم ہو جاتی ہیں، مگر سوشل میڈیا پر لکھی گئی ہر عبارت، ہر جملہ، ہر لفظ بلکہ ہر حرف ناقابلِ حذف و نسخ ہے۔ اس میں تحریف تو ہو سکتی ہے، لیکن تحذیف نہیں۔ اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ نسل در نسل منتقل ہوں۔ یہ اثرات صرف دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے برکات عالمِ بالا میں بھی دیکھے جائیں گے۔ مالک نے انسان کے اعمال و افعال و حرکات و سکنات کو کرام الکاتبین کے ذریعے محفوظ کر کے روزِ حساب حجت قائم کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔

کرام الکاتبین یعنی وہ فرشتے جو انسان کے کندھوں پر موجود رہتے ہیں اور اس کے اعمال کی فائلیں تیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ۔۔ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ۔ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ (سورہ قاف: 16-19)

ان آیات میں خلقت سے موت تک کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل کے وسوسوں کو بھی جانتے ہیں۔ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اور اس کے دائیں اور بائیں طرف موجود فرشتے ہر لمحہ اس کے اعمال قلمبند کر رہے ہیں۔ کوئی بھی بات اس کی زبان سے نہیں نکلتی مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے۔

"اگر میڈیا کی لگام عدل و انصاف کے ہاتھوں میں ہوگی تو معاشرہ محبتوں کا آئینہ بنے گا، لیکن اگر یہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی تو ملک میں ظلم و استبداد عام ہو جائے گا۔"

سوشل میڈیا آج کے دور میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ چاہے تو لمحوں میں گمنام شخصیات کو شہرت کے بام پر پہنچا دے، اور چاہے تو بامِ شہرت پر موجود شخصیات کی لغزشوں کو بدنامی کے کنویں میں ڈھکیل دے۔ یہ جس کی چاہے تعریف و توصیف کرے، اور جس کے خلاف چاہے محاذ جنگ کھول دے۔ اگر میڈیا کی لگام عدل و انصاف کے ہاتھوں میں ہوگی تو معاشرہ محبتوں کا آئینہ بنے گا، لیکن اگر یہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی تو ملک میں ظلم و استبداد عام ہو جائے گا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی میڈیا آزادی کے بجائے غلامی کے راستے پر چل نکلی ہے۔ جب میڈیا نفرت کی تجارت، سیاست کی حماقت، اور اہلِ ثروت کی لونڈی بن جائے تو اس کی روح اور جسم پر اس کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ وہ شب باش طوائف بن جاتی ہے جو دولت کے آرام کے بدلے گھروں کا سکون لوٹ لیتی ہے۔ جب میڈیا مجرموں کی حمایت، اور بے گناہوں کے خون کی تجارت کرنے لگے تو اس کے کردار پر سوال اٹھنا لازم ہے۔

"میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچائی کی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرے، فتنہ و فساد کی خبروں کو روکنے کی کوشش کرے، اور معاشرتی بگاڑ کے خلاف آواز بلند کرے۔"

میڈیا کی بنیادی ذمہ داریاں یہ ہیں کہ وہ حاکم کے چہرے کے خدوخال واضح کرے، سچائی کی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرے، مجرموں کو بے نقاب کرے، اور ملک کی عوام کو بدعنوانوں سے آگاہ رکھے۔ اس کا فرض ہے کہ فتنہ و فساد کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح نہ پھیلنے دے، بلکہ ہر فتنہ کی آگ کو اپنی قلم کی روشنائی سے بجھا دے۔ زناکاروں، بد کرداروں اور ملک کے غداروں کو بے نقاب کرے، اور سچی، بے باک صحافت کا علم بلند رکھے۔

میری دعا ہے کہ ربِ لوح و قلم ہماری سچی، بے باک، جرات مند، شجاع صحافت کو سلامت رکھے، تاکہ معاشرے میں حق کا بول بالا ہو اور ظلم کی تاریکیوں کا خاتمہ ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .