۱۱ آبان ۱۴۰۳ |۲۸ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Nov 1, 2024
احکام شرعی

حوزہ/ آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کے فتاویٰ کے مطابق، "حرام مال سے کسی قسم کا صدقہ، خیرات، یا دینی خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور ایسا مال اگر کسی مجلس یا محفل پر خرچ کیا جائے تو وہ جائز نہیں ہوگا۔"

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کے فتاویٰ کے مطابق، حرام مال کا استعمال عمومی طور پر جائز نہیں ہے، چاہے وہ ذاتی استعمال میں ہو یا کسی مجلس، محفل یا دیگر دینی تقریبات میں۔ حرام مال سے مراد وہ مال ہے جو ناجائز طریقوں جیسے سود، رشوت، چوری، یا کسی بھی دوسرے غیر شرعی ذریعے سے حاصل کیا گیا ہو۔

سوال: کیا ہم دین اسلام کے کاموں میں مجلس اور محفل میں ایسے افراد جو حرام طریقے سے پیسہ کماتے ہیں ان سے مدد اور تعاون لے سکتے ہیں؟

جواب: حرام مال کا استعمال: آیت اللہ سیستانی کے مطابق، حرام مال کسی بھی صورت میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ شرعاً ملکیت میں نہیں ہوتا۔ جب تک کسی کی محنت یا جائز طریقے سے کمائی نہ ہو، اس سے نفع اٹھانا حرام ہے۔

مجلس یا محفل میں حرام پیسہ لگانا: حرام مال سے دینی تقریبات، مجلس، یا محفل وغیرہ میں خرچ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس مال کا استعمال فی نفسہ جائز نہیں ہے، چاہے مقصد دینی ہی کیوں نہ ہو۔ دینی امور میں مال خرچ کرنے کا بھی حکم یہی ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ مال سے ہو تاکہ اس کا ثواب مل سکے۔

کتاب "منہاج الصالحین" آیت اللہ سیستانی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .