۶ آذر ۱۴۰۳ |۲۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 26, 2024
شجرہ امروہہ

حوزہ/ سادات عثمان پور ضلع امروہہ کا اہم سرمایہ جس کو انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر ایران کلچر ہاؤس دہلی میں بہت خوبصورتی کے ساتھ عظیم سرمایہ کاری کرکے محفوظ کیا ہے، اس سرمایے کو نسب نامہ یا شجرۂ سادات عثمان پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| سادات عثمان پور ضلع امروہہ کا اہم سرمایہ جس کو انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر ایران کلچر ہاؤس دہلی میں بہت خوبصورتی کے ساتھ عظیم سرمایہ کاری کرکے محفوظ کیا ہے، اس سرمایے کو نسب نامہ یا شجرۂ سادات عثمان پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عثمان پور ضلع امروہہ صوبۂ اتر پردیش کے مغرب میں واقع ہے، جس کی کل آبادی: 1000 ہے اور مسلم آبادی 100٪ اسی میں شیعہ آبادی 1000٪ پائی جاتی ہے، یہاں کے لوگ ہمیشہ دیندار رہے ہیں۔ ان کی دینداری کی علامت 1/مسجد اور 4/ حسینیہ و کربلا ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ تعلیم یافتہ رہے ہیں 1/اسکول ان کی علم دوستی کی علامت ہے۔ عثمانپور کے سادات نقوی کا سلسلہ نسب سید چاند بن نور کے توسط سے امام علی نقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور سلسلہ نسب سادات عابدی حضرت عمر اشرف کے توسط سے امام علی بن الحسین علیہم السلام تک پہنچتا ہے۔

شجرہ کی اجمالی وضعیت: یہ شجرہ انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر میں جناب سعید اختر پھندیڑوی کی سعی و تلاش سے کپڑے پر خوبصورت خط اور تزئین کے ساتھ لکھا گیا ہے۔

تجدید شجرہ اور اس کی خصوصیت: شجرۂ مذکورہ کی تحریر اور تکمیل میں سادات کا سلسلہ نسب سنہ ۲۰۲۱ عیسوی تک شامل کیا گیا ہے اس شجرہ کی تکمیل میں سادات عثمانپور خصوصا حکیم مولانا سید رضی عباس نقوی نے اپنا تحریر کردہ خطی نسخہ مولانا سید رضی حیدر زیدی پھندیڑوی کے توسط سے ادارہ کو دیا یہ نسخہ کتب انساب کی مدد سے تیار شدہ ہے۔ آپ کے شجرہ کو محور بناتے ہوئے ادارہ میں شجرہ پر کام شروع کردیا گیا البتہ دیگر کتب انساب سے بھی مدد لی گئی جیسے کوثرالانساب، فیضان سادات وغیرہ۔ شجرہ کو مرتب کرنے والوں نے ان تمام شجرات کی مدد سے عثمان پور کے شجرہ کو مکمل کیا۔ اسی طرح مولانا شاداب حسین نقوی اس کام سے باخبر رہے اور اپنے خانوادہ کے افراد کے اسماءسنہ ۲۰۲۱ عیسوی تک مکمل کرکے ادارہ کو پہنچائے۔ شجرہ کی تکمیل میں شب و روز جناب سعید اختر پھندیڑوی نے بہت زیادہ زحمات برداشت کیں سادات کے گھروں پر جا کر ان کے اسماء سنہ 2021 عیسوی تک اپنی ڈائری میں تحریر فرمائے اور ادارہ میں آکر ان کو لکھوایا۔ شجرہ کی کتابت جب کپڑے پر شروع ہوئی تو آپ گاہی بہ گاہی آتے اور ایک نظر کرتے تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔اسی طرح مولانا سید رضی حیدر زیدی نمبردار پھندیڑوی نے اس شجرہ کے لیےمسلسل سعی و تلاش کے ساتھ مکمل نظارت بھی فرمائی۔ اس شجرہ میں سادات نقوی کے علاوہ سادات عابدی بھی شامل کیے گئے ہیں۔شجرہ کی تنظیم اور تحریر کے درمیان علماء، فضلا، دانشوران، مومنین اور اہل علم سے درخواست کی جاتی رہی ہے کہ وہ لوگ اس کام میں اپنے مشورے یا اصلاح کے ذریعہ مدد فرمائیں تاکہ غلطیاں کم سے کم ہوں۔

عثمان پور از لحاظ جغرافیائی: یہ دیہات امروہہ کی شمالی سمت سے 6/ کلو میٹ اور نوگاواں سادات کے مشرق میں 10 /کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے۔ عثمان پور کے جنوب اور مغرب کی سمت باندی ندی تھی جو اب سوکھ گئی ہے اور لوگ اس پر کھیتی کر رہے ہیں ۔ نیزقاسم پور،علی داد پور، حق دادپور اور باقی پور اس کے اطراف میں پائے جاتے ہیں۔

عثمان پور کے مراکز علمی، فرہنگی اور مذہبی: درحال حاضر عثمان پورمیں ایک ابتدائی سرکاری اسکول، گرام پنچایت گھر،ایک مسجد بنام حسینی، عزاخانہ حسینی، امامبارگاہ پنجتنی اور شبیہ بارگاه حضرت عباس(ع)،مزار مورث اعلیٰ میر سید چاند بن نور، کربلا، قبرستان دیکھنے کو ملتے ہیں۔

عثمان پور میں آبادخاندان: یہ دیہات چھوٹی سے آبادی پر مشتمل ہے جس میں نقوی اور عابدی خاندان آباد ہیں۔

عثمانپور کیاہم شخصیات: عثمانپور کے علمائے کرام کے اسماء کچھ اس طرح ہیں: مولانا انتظار حسین نقوی، مولانا حکیم رضی عباس، مولانا ذیشان حیدر نقوی مرحوم مبلغ افریقہ وسابق امام جماعت سوئی والان دہلی،مولانا فرمان حیدر امام جمعہ سنگم وہار دہلی،مولانا نجف علی،مولانا نورین،مولانا معطر، مولانا ظلّین وغیرہ

تاریخ اجمالی عثمان پور: جب ہم تاریخی کتب جیسے کتاب عجائب الاسفار ابن بطوطہ اور کتاب نخبة التواریخ صفحہ 51 پر نگاہ کرتے ہیں تو ہمیں سادات نقوی عثمان پور ضلع امروہہ کے نسب نامہ کے بارے میں مطالب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ سید محمد فراش الدین فرزند شیخ الشیوخ میر سید داؤد الصیداوی الواسطی کو عثمان پور کے سادات نقوی کی بزرگ شخصیتوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے شاگردوں نے شیخ لقب سے یاد کیا ہے۔یہ ایک روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ میر سید محمد ابدال ملقب بہ عزیز اللہ جد بزرگ میر سید کمال مؤلف اسرار یہ کہ ان کی اولاد میں سید مخدوم، میر سید علی قاضی القضاة امروہہ اور میر سید حسن داماد فیروز تغلق جانشین سجادہ تھے نہ کہ مرید اور خلیفہ۔اسی طرح جناب نظام الملت اور نصیر الملت کا بھی تصوف اور صوفیہ سے کوئی ارتباط نہ تھا بلکہ یہ لوگ اپنے آبا و اجداد اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے زمانہ کے لحاظ سے قریب تھے جس کی وجہ سے علم اور تقویٰ میں اپنا مقام اور منزلت رکھتے تھے۔ مورخ عباسی اور علامہ مودودی نے لکھا ہے کہ شیخ الشیوخ میر سید احمد گنج روان عہد اسلامی کی ابتدا میں امروہہ میں سکونت پزیر تھے۔آپ نصیرالملت (نصیرالدین)اور شرف الملت (شرف الدین) سے پہلے امروہہ میں سکونت پزیر تھے۔حضرت نظام الملت سید احمد گنج رواں قرن ہفتم ہجری میں سلطان شہاب الدین غوری اور سلطان قطب الدین ایبک کے عہد میں سرزمین امروہہ پر وارد ہوئےاور اپنے قدوم مبارک سے اس سرزمین کو منور فرمایا۔ان بزرگوں نے اہلبیت علیہم السلام کے آثار اور ان کے برکات کی بنیاد اس سرزمین پر رکھی۔ ان بزرگوں نے پنجتن پاک علیہم السلام کی غلامی کا طوق پہن کر صداقت و حقانیت کو اس سرزمین پر پھیلایا اور ان ہی کی برکت سے امروہہ اور اطراف امروہہ سادات نقوی سے مفتخر ہے۔

عثمان پور کی وجہ تسمیہ: سنہ 1366 عیسوی میں سادات امروہہ کے بزرگوں نے جنوب و مغرب میں باندی ندی،قاسم پور،علی داد پور،حق دادپور،باقی پور کواپنی قضاوت کے زمانہ میں نام رکھے تھے اور ان ہی کے درمیان میں ایک دیہات کھیڑا بسایا اور اسی میں سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے : میر سید عثمان علی ابن سید حسن بن سید قیران الدین بن سید حسین بن میر سید چاند رحمت الله علیہ (جو ایک بزرگ شخصیت تھے)نے اس آبادی کو ترک کیا اور سمت شمال تقریبا پانچ سو قدم پر سید چاند رحمت الله علیہ کے مزار کے قریب ایک نیا دیہات اپنے نام پر(عثمان پور) بسایا۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے بعد یہاں سے بہت سے سادات نے پاکستان کی طرف ہجرت کرلی اور بہت سے امروہہ میں آباد ہوگئے ایک گھر نورپور نصیر پور منتقل ہو گیا فی الحال عثمان پور کی آبادی بہت کم ہے۔خداوند کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے سادات کو اپنے اجداد کی طرح علم و تقویٰ عطا فرما اور مؤمنین کو اپنی حفظ وامان میں رکھ آمین والحمدللہ رب العالمین۔

سادات عثمان پور، امروہہ کا بیش بہا سرمایہ+شجرہ نامہ

سادات عثمان پور، امروہہ کا بیش بہا سرمایہ+شجرہ نامہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .