تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم
حوزہ نیوز ایجنسی| حق اور باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے، اور ہمیشہ حق پر کھڑے ہونے والے افراد باطل کے لیے خوف کا سبب بنتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی مردِ مجاہد میدان میں آتا ہے، تو طاغوتی طاقتیں اس سے لرزتی ہیں، اور جب وہ شہید ہو جاتا ہے، تو اس کا جسدِ خاکی بھی ان کے لیے وحشت کا سامان بن جاتا ہے۔
شہید حسن نصر اللہ کی شہادت نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ دشمن ان سے صرف ان کی زندگی میں ہی نہیں ڈرتا تھا بلکہ آج ان کا جسدِ اقدس بھی ان پر لرزہ طاری کیے ہوئے ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں جو ان کے وجود سے خوفزدہ تھیں، آج ان کے جنازے سے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تدفین کے موقع پر دنیا بھر سے لوگوں کے پہنچنے پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔
کئی ممالک کی فضائی حدود بند کر دی گئیں، پروازوں کو روک دیا گیا، اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم سے کم ہو۔ یہ کیسی بزدلی ہے کہ ایک شہید کا جنازہ بھی انہیں سکون سے نہیں جینے دے رہا؟ وہ قوتیں جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتی تھیں، آج ایک لاش سے خوفزدہ ہو کر اپنے ہی قوانین کو روند رہی ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان باطل طاقتوں کے ساتھ کچھ مسلم ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں، جو خود کو امتِ مسلمہ کے رہنما کہلوانا چاہتے ہیں۔ وہی ممالک جو کبھی حق کی بات کرتے تھے، آج باطل کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک شہید کے جنازے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ان کی خاموشی، ان کی بےحسی، اور ان کی منافقت کھل کر سامنے آ چکی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جب تاریخ لکھ رہی ہے کہ کون کہاں کھڑا تھا؟ کون ظالموں کے ساتھ تھا اور کون مظلوموں کا ساتھ دے رہا تھا؟ حسن نصراللہ کی شہادت نے نہ صرف دشمنوں کے چہروں سے نقاب کھینچ دیا بلکہ نام نہاد مسلم قیادتوں کی حقیقت بھی آشکار کر دی۔
باطل طاقتیں جتنا چاہیں، حسن نصراللہ کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کریں، وہ ناکام رہیں گی۔ کیونکہ شہادت کوئی اختتام نہیں، بلکہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے۔ یہ وہ مشعل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور ظلم کے ایوانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو تاریخ میں کئی بار دہرائی جا چکی ہے۔ جب امام حسینؑ کا کارواں کربلا میں پہنچا تھا تو یزید کی سلطنت یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ انہیں مٹا دے گی، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کربلا آج بھی زندہ ہے اور یزیدیت آج بھی رسوا ہو رہی ہے۔
حسن نصراللہ کی شہادت بھی ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔ آج وہ جسمانی طور پر ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کا پیغام، ان کی قربانی، اور ان کی مزاحمت ہمیشہ باقی رہے گی۔ اور جنہوں نے باطل کا ساتھ دیا، ان کے نام بھی ہمیشہ کے لیے رسوائی کے اوراق میں درج ہو چکے ہیں۔
حسن نصراللہ کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ دشمن جیتنے کے باوجود بھی ہارا ہوا ہے۔ وہ ایک شہید کے جنازے سے بھی ڈر رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس جنازے میں شامل ہونے والے لوگ صرف تعزیت کے لیے نہیں آ رہے، بلکہ وہ عزمِ نو لے کر آ رہے ہیں۔
یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ حق کے چراغ بجھانے والے ہمیشہ ناکام رہے ہیں اور ہمیشہ ناکام رہیں گے۔ حسن نصراللہ کی تدفین، ایک نئی صبح کی نوید ہے، جس میں باطل کا زوال اور حق کی فتح لکھی جا چکی ہے۔









آپ کا تبصرہ