حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش کے ممتاز و بزرگ شیعہ عالم دین، حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم خلیل رضوی، مدیر حوزہ علمیہ المرکز لدراسات اسلامیہ خولنا اور شیعہ علماء کونسل آف بنگلادیش کے صدر نے حوزہ علمیہ قم کی جدید تأسیس کے صد سال مکمل ہونے کے موقع پر، قم المقدسہ کے مدرسہ امام کاظم علیہ السلام میں 7 اور 8 مئی 2025 کو منعقدہ دو روزہ عظیم الشان انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران، حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، حوزہ علمیہ کی خدمات کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
یہ گفتگو سوال و جواب کی شکل میں پیش کی جا رہی ہے
سوال: سب سے پہلے ہمارے قارئین کے لئے اپنا تعارف، آپ کا اسم مبارک، کس ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہاں آپ کی دینی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر وضاحت فرمائیں۔
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم حقیر کو سید ابراہیم خلیل رضوی کہتے ہیں، میرا تعلق بنگلہ دیش کے شہر خولنا سے ہے، وہاں میں حوزہ علمیہ المرکز لدراسات اسلامیہ" کا بعنوان مدیر خدمت انجام دے رہا ہوں۔ الحمدللہ، یہ مرکز 32 سال قبل قائم کیا گیا تھا۔ اب تک تقریباً 65 طلبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً 40 طلبہ مزید تعلیم کے لئے قم المقدسہ تشریف لائے اور یہاں سے فراغت کے بعد اب یہ طلبہ بنگلہ دیش میں مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سوال: بنگلہ دیش میں حوزہ علمیہ کے تحت اب تک کن علمی اور دینی خدمات کو انجام دیا گیا ہے؟
جواب: الحمدللہ، مرکز لدراسات اسلامیہ خولنا کے تحت ایک پندرہ روزہ مجلہ "فجر" حکومتی اجازت کے ساتھ شائع ہورہا ہے، جو ملک کے مختلف سرکاری اداروں اور عوامی حلقوں میں ارسال کیا جاتا ہے۔
اب تک تقریباً 65 اہم دینی و فکری کتابوں کا ترجمہ کرکے شائع کیا جاچکا ہے، جن میں "انسانی حقوق" اور "پنجتن" جیسی نمایاں کتابیں بھی شامل ہیں۔
مرکز لدراسات اسلامیہ اب بنگلہ دیش میں شیعیان اہل بیتؑ کا ایک فعال مرکز بن چکا ہے۔ دینی مسائل میں عوام ہم سے رجوع کرتے ہیں۔ الحمدللہ، 2016 میں جب بعض مشکلات پیش آئیں تو حوزہ کی سرپرستی میں ان مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا گیا۔
سوال: بنگلہ دیش میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کی کیا کوششیں رہیں؟
جواب: الحمدللہ، مرکز لدراسات اسلامیہ خولنا کی محوریت میں اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں عملی اقدامات کیے گئے۔ اہل سنت کے مشہور علماء، سے مضبوط روابط قائم کیے گئے۔ مختلف مساجد میں اہل بیتؑ کی معرفت پر تقاریر کی جاتی ہیں اور وحدت کے ساتھ دین مبین کی نشر و اشاعت کا کام جاری ہے۔
حجۃ الاسلام آقای رمضانی صاحب کے دورۂ بنگلہ دیش کے موقع پر تقریباً 64 اہل سنت علمائے کرام آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے اور آپ سے نماز جماعت کی امامت کی درخواست کی، جو اتحاد و اخوت کی ایک شاندار مثال ہے۔
سوال: حوزہ علمیہ قم کی خدمات پر آپ کے کیا تأثر ہیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ آج ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں، وہ حوزہ علمیہ قم کی برکت ہے۔ اگر حوزہ علمیہ قم اپنی موجودہ شکل میں تأسیس نہ پاتا تو نہ ہمیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا اور نہ اپنے ملک میں کوئی عملی قدم اٹھا سکتے تھے۔
آج جب حوزہ علمیہ قم کی جدید تأسیس کی صد سالہ سالگرہ منائی جارہی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدیؒ کی تأسیس اور امام خمینیؒ کی تحریک کے بعد، حوزہ علمیہ نے مکتب تشیع کو صحیح طریقے سے جہان اسلام میں متعارف کرایا ہے۔ اس سے پہلے اس سطح پر تشیع کی ترویج اور منفی پروپیگنڈے کا مؤثر جواب ممکن نہ تھا۔
سوال: اس موقع پر آپ بنگلہ دیش اور دنیا بھر کے طلاب کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: اس موقع پر میں یہ گزارش کرونگا کہ ہمارے طلاب اس موقع کو غنیمت جانیں، حوزہ علمیہ میں رہ کر دینی اور عصری علوم میں مہارت حاصل کریں، تاکہ اپنے اپنے ممالک میں اسلامی بیداری اور مکتب اہل بیتؑ کا صحیح اور حکیمانہ تعارف کراسکیں۔
خاص طور پر بنگلہ دیش، جہاں تشیع کی تبلیغ کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ علوم اہل بیتؑ کو اپنے کلچر اور مزاج کے مطابق حکمت اور سلیقے سے عوام تک پہنچائیں۔
حوزہ نیوز: ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت عنایت فرمایا۔