اتوار 25 مئی 2025 - 15:16
مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال اور اس کے اخلاقی چیلنجز

حوزہ / مصنوعی ذہانت (AI) اور اس پر مبنی ٹیکنالوجیز اخلاقی لحاظ سے دوہری نوعیت کی حامل ہوتی ہیں جیسا کہ فلسفۂ اخلاق میں دوہری اخلاقی کارکردگی کے نظریے میں بیان ہوا ہے، ہر ایک مصنوعی ذہانت (AI) کی ٹیکنالوجی اخلاقی اعتبار سے فوائد اور مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ خطرات، چیلنجز اور منفی پہلوؤں کا مجموعہ ہوتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مصنوعی ذہانت (AI) اور اس سے متعلقہ ٹیکنالوجیز کے حوالے سے فقہی، فلسفی، اخلاقی، کلامی، سیاسی اور دیگر مختلف پہلوؤں سے متعدد موضوعات قابل توجہ ہیں، تاہم اس گفتگو میں ان ٹیکنالوجیز کو اخلاقی زاویے سے دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اہم ترین موضوع، اخلاق اور مصنوعی ذہانت (AI) کے درمیان نسبت کا جائزہ ہے، جس کے ضمن میں مصنوعی ذہانت (AI) کی اخلاقی کارکردگی جیسے موضوعات بھی زیر بحث آتے ہیں۔

اسی سلسلہ میں حوزہ نیوز کے نمائندہ نے حجت الاسلام والمسلمین حسین علی رحمتی سے گفتگو کی۔ جو "اخلاقِ ٹیکنالوجی کے مدرس و محقق، قم یونیورسٹی سے فلسفۂ اخلاق میں پی ایچ ڈی، علمی کمیٹی اور شعبۂ اخلاقِ عملی کے مدیر، قرآنی و حدیثی تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ کے شعبۂ اخلاق و اسلامی نفسیات کے سربراہ اور "سوشل میڈیا میں اخلاقی تزاحم" اور "اخلاقِ ٹیکنالوجی و مواصلاتی علوم کی ماخذ شناسی" جیسے علمی کتابوں کے مصنف ہیں۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: مصنوعی ذہانت (AI) اور اس پر مبنی ٹیکنالوجیز اخلاقی لحاظ سے دوہری کارکردگی رکھتی ہیں جیسا کہ فلسفۂ اخلاق کے دوہری کارکردگی کے نظریے میں ذکر کیا گیا ہے، ہر ایک ٹیکنالوجی کے اندر مثبت فوائد اور اخلاقی ثمرات کے ساتھ ساتھ خطرات، منفی اثرات اور چیلنجز بھی پائے جاتے ہیں۔

اس حوزوی ماہرِ تعلیم نے مزید کہا: اگر کوئی شخص مصنوعی ذہانت (AI) کو صرف منفی پہلوؤں سے دیکھے یا اسی طرح صرف اس کے مثبت اور اچھے پہلوؤں پر توجہ دے تو وہ اخلاقِ مصنوعی ذہانت (AI) پر حقیقت پسندانہ تحقیق و تجزیہ نہیں کر سکتا۔ چونکہ اس طرح ایک طرفہ نقطۂ نظر کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انسان غلط نتائج تک پہنچے کیونکہ ابتدائی نگاہ ہی اگر درست اور واقع بینانہ نہیں تھی تو نتیجہ بھی غلط اور غیر حقیقی ہوگا۔

انہوں نے کہا: جب پالیسی سازی اور منصوبہ بندی غیر دقیق یا غلط بنیادوں پر کی جائے گی تو عوام بالخصوص نوجوان نسل ایسی پالیسیوں اور اس کے راہِ حل کو قبول نہیں کرے گی اور ان کے ساتھ ہمدلی، ہم فکری اور ہمراہی کا رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ لہذا سب سے پہلے ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے اخلاقی پہلو کو دوہری کارکردگی کے نظریے کی روشنی میں سمجھا جائے۔

حجت الاسلام حسین علی رحمتی نے کہا: ہمیں چاہیے کہ اسلامی اخلاق کے زاویے سے اس عمل میں مؤثر شرکت کریں۔ لہذا یہ مباحث پہلے دینی مراکز جیسے کہ حوزات علمیہ اور دیگر مذہبی اداروں میں اٹھائے جائیں اور پھر عالمی سطح پر پیش کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے مصنوعی ذہانت (AI) سے وابستہ اخلاقی چیلنجز کی نشان دہی ضروری ہے اور اس کے بعد کتاب و سنت اور ایسے اسلامی اصولوں جیسے کہ "حفاظتِ کرامتِ انسانی" سے استفادہ کرتے ہوئے اس کی حدود و قیود کا تعین کیا جائے۔ مثلاً یہ بیان کیا جائے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی اس حد تک ہونی چاہیے کہ اس کا نتیجہ انسانی کرامت کی پاسداری ہو، نہ کہ اس کی پامالی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha