ہفتہ 23 اگست 2025 - 19:49
شعر اور فن کو توحید سے جوڑنا ضروری ہے / دینی میراث کے احیا سے امت دشمنوں کے خطرات سے محفوظ رہے گی

حوزہ/ آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے کہا ہے کہ اصل اور سچا شعر و فن وہی ہے جو توحید کے پیغام کو سادہ اور عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچائے۔ اگر دینی تعلیمات اور ورثے کو صحیح طریقے سے زندہ کیا جائے تو امت اسلامی کو دشمنوں کے دباؤ اور دھمکیوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے کہا ہے کہ اصل اور سچا شعر و فن وہی ہے جو توحید کے پیغام کو سادہ اور عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچائے۔ اگر دینی تعلیمات اور ورثے کو صحیح طریقے سے زندہ کیا جائے تو امت اسلامی کو دشمنوں کے دباؤ اور دھمکیوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

یہ بات انہوں نے آیت اللہ علی رضا اعرافی اور ’’چوتھے توحیدی مشاعرے‘‘ کے منتظمین سے ملاقات میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ائمہ معصومینؑ کے زمانے سے ہی علم کے ساتھ ساتھ ادب اور فنون کو اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ کبھی خود ائمہؑ نے اشعار کہے اور کبھی اہلِ ادب کے اشعار کے ذریعے دین کے حقائق بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر اشعار صرف خیال اور تصور تک محدود رہتے ہیں، لیکن اصل اور بلند فن وہ ہے جو عقل اور ایمان کے گہرے معانی کو عام لوگوں کی زبان میں پیش کرے اور ان کے دلوں تک پہنچائے۔ ایسا کمال کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ زیادہ تر بڑے شعرا جیسے حافظ، سعدی، مولوی اور فیض کاشانی کے کلام میں جھلکتا ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شعر اور فن کو لازماً توحید کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا: "اگر توحید زندہ ہو تو نہ کوئی بھٹکے گا اور نہ ہی دوسروں کا راستہ روکے گا، اور نہ ہی دشمن امت کو نقصان پہنچا سکے گا۔ لیکن اگر کوئی کافر مسلمانوں کے رہبر کو دھمکانے کی جرات کرے تو یہ ہماری کمزوریٔ توحید کی نشانی ہے۔" ان کے مطابق زبان سے توحید کا ذکر کافی نہیں، جب تک انسان خود غرضی اور گناہوں سے نجات نہ پائے، حقیقی توحید معاشرے میں قائم نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج حوزہ علمیہ میں اہل بیتؑ کے علوم کا صرف ایک حصہ پڑھایا جا رہا ہے، جبکہ دینی ورثے میں ایسی عظیم دولت چھپی ہوئی ہے جو اسلامی تمدن کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اگر ان تعلیمات کو درست طریقے سے زندہ کیا جائے تو نہ اندرونی کمزوریاں رہیں گی اور نہ بیرونی دشمن کامیاب ہو سکیں گے۔

آخر میں انہوں نے توحیدی مشاعرے کے منتظمین کو نصیحت کی کہ وہ اپنی شاعری اور فن کو سطحی باتوں سے اوپر اٹھا کر توحید اور معرفت کے فروغ میں استعمال کریں، تاکہ یہ فن نہ صرف دیرپا ثابت ہو بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی حقیقت کی طرف رہنمائی کرے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha