حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز ایک آنلائن علمی نشست بعنوانِ "آئیڈیل دینی طالب علم، رہبرِ انقلاب کی نگاہ میں" شعبۂ تحقیق جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کراچی کی جانب سے منعقد ہوئی؛ یہ نشست حوزہ علمیہ قم کے سو سالہ یومِ تاسیس کے موقع پر رہبرِ انقلاب کے جاری کردہ پیغام کے تناظر میں منعقد کی گئی۔

پروگرام کے آغاز میں جناب منظوم ولایتی نے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور محترم ریاضت حسین رضی نے تلاوت کی سعادت حاصل کی۔
بعد ازاں شعبۂ تحقیق جامعۃ المصطفیٰ کراچی کے مسئول جناب سکندر علی بہشتی نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے نشست کے انعقاد کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔
نشست سے مولانا محمد سجاد شاکری نے خطاب کیا۔ ان کا موضوع تھا:"دینی طلاب کا عصرِ حاضر میں جامع کردار، رہبر کے پیغام کی روشنی میں"۔
مولانا شاکری نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اصل موضوع سے پہلے چند بنیادی نکات پر توجہ دینا ضروری ہے:
1️⃣ پیغام کی اہمیت:
سب سے پہلے تو اس پیغام کی اہمیت کا اندازہ پیغام دینے والی عظیم شخصیت، یعنی رہبر انقلاب اسلامی سے ہوتا ہے۔ ان کا مقام اور مرتبہ سب پر واضح ہے۔
2️⃣پیغام کا محتوی:
اس پیغام کا اصل ماحصل یہ ہے کہ چاہے حوزہ علمیہ قم ہو یا دیگر دینی مدارس، سب کے لیے یہ پیغام ایک منشور، نقشۂ راہ اور حکمتِ عملی ہے۔مستقبل کی اصلاحات کا مرکزی نکتہ اسلامی تہذیب کی نئی تشکیل ہے۔
3️⃣دین و سیاست کا رشتہ: معاشرے میں بعض حلقے دین و سیاست کی جدائی کے قائل ہیں۔ رہبر نے اپنے پیغام میں اسے ایک زہریلا نظریہ قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ فکر امت کے لیے خطرناک ہے۔
4️⃣ اسلامی تہذیب کی تشکیل:
رہبر نے جدید اسلامی تہذیب کی تشکیل کو اعلیٰ ترین ہدف قرار دیا ہے۔
5️⃣حوزہ کا اثر:
بعض افراد یہ خیال رکھتے ہیں کہ حوزہ کا کوئی اثر نہیں، لیکن رہبر نے فرمایا کہ سو سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ حوزہ ہمیشہ مؤثر رہا ہے اور آج بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد مولانا شاکری نے رہبر کے بیان میں موجود پانچ بنیادی نکات کی وضاحت کی، جو ایک دینی طالب علم کی شخصیت میں نمایاں ہونے چاہییں:
رہبر کے نزدیک دینی طالب علم کے پانچ اہم کردار
1️⃣ تعلیمی و تحقیقی کردار:
فقہ، فلسفہ، کلام اور دیگر علومِ دینی کو گہرائی سے حاصل کرنا۔ فقہ کو جامع مفہوم میں سمجھنا تاکہ بین الاقوامی، سیاسی اور ٹیکنالوجی کے مسائل کا فقہی حل فراہم کیا جا سکے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کے عنصر کو ملحوظ رکھنا اور جدید اداروں سے روابط قائم رکھنا۔
2️⃣ فکری و اخلاقی کردار:
طالب علم کی اپنی تربیت اور اخلاقی بلندی نہ ہو تو وہ دوسروں کو مؤثر انداز میں دعوت نہیں دے سکتا۔
3️⃣ تبلیغی و ثقافتی کردار:
رہبر نے واضح، روشن اور مؤثر تبلیغ پر زور دیا ہے اور طلاب کو "ثقافتی مجاہدین" کا لقب عطا کیا ہے۔
4️⃣ سماجی و سیاسی کردار:
تاریخ گواہ ہے کہ علماء و حوزات ہمیشہ استکبار کی مخالف اور امت کے ترجمان رہے ہیں۔ یہی کردار آج بھی طلاب پر لازم ہے۔
5️⃣ تہذیبی و عالمی کردار:
اسلامی تہذیب کی تشکیل کو طلاب علومِ دینی کی سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ ہمارا مکتب، امام مہدی (عج) کی قیادت میں عالمی اسلامی حکومت کا دعویدار ہے اور اس کے ظہور کے لیے زمینہ سازی صرف نئی اسلامی تمدن کے ذریعے ممکن ہے۔
مولانا شاکری نے آخر میں کہا کہ یہ وہ پانچ نکات ہیں جو رہبرِ انقلاب ہر دینی مدرسے اور طالب علم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
بعد ازیں "مثالی حوزہ کے خدوخال، رہبر کی نظر میں" کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے حجۃ الاسلام شیخ فداعلی حلیمی نے کہا کہ مثالی حوزہ کے خدوخال کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے حوزہ کا مقصد سمجھنا ضروری ہے۔ اگر مقصد صرف تعلیم و تدریس ہے تو اس کے خدوخال ایک طرح کے ہوں گے اور اگر مقصد دین اور عوام کی خدمت ہے تو اس کے خدوخال کچھ اور ہوں گے۔
اگر حوزہ کا مقصد دین اور عوام کی خدمت ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدمت کی نوعیت کیا ہوگی اور اسے کس طرح انجام دیا جائے گا؟ اس تناظر میں رہبر انقلاب نے حوزہ کے مقاصد کو دین کی خدمت قرار دیا ہے، جیسے: فہمِ دین، تبیینِ دین، تفہیمِ دین، حاکمیتِ دین اور عوام کی علمی، تربیتی و معنوی رہنمائی۔
پہلا عنصر:
حوزہ ایک حقیقی علمی مرکز ہو۔ اس کے لیے نصاب، تدریس اور نظامِ مدیریت سب اس طرح مرتب ہوں کہ فارغ التحصیل طالب علم دین اور معاشرے کی بہتر خدمت کر سکے۔ اس مقصد کے لیے نصاب، داخلے کی شرائط، تدریسی طریقے اور نظامِ مدیریت سب پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
دوسرا عنصر:
صرف درس و تدریس ہی اصل ہدف نہ ہو بلکہ کارآمد افراد کی تربیت، معنویت، اخلاق اور روحانیت پر بھی زور دیا جائے۔ یہ ماحول صرف دینی مدارس کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
تیسرا عنصر:
مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا کے نشیب و فراز اور حالات سے آگاہ ہوں۔ رہبر انقلاب کے مطابق دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنا ضروری ہے، کیونکہ تاریخ میں دشمن شناسی کی کمی کی وجہ سے امت کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہماری حرکت ظہور کی جانب ہے۔ اس وقت دو تہذیبوں کی جنگ جاری ہے: ایک مادی تہذیب جو خدا کے انکار اور روحانیت سے خالی ہے، اور دوسری وہ تہذیب جو دینی مدارس کے ذریعے وجود میں آئے گی، جو خدا محوری، توحید، عدالت، آزادی، کرامت، شرافت اور دینی قوانین کی حاکمیت پر مبنی ہوگی، اسی لیے دینی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ عالمی سطح پر اسلامی حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کر سکے۔ تشیع کا آغاز غدیر سے ہوا اور اس کی انتہا ظہورِ امام ہے، جو مکمل سیاسی نظام ہے۔ اسلام کی حاکمیت کے لیے افراد کی تیاری ہی اصل مقصد ہے، اور اس کے لیے ہدایت کا پیغام واضح اور "بلاغِ مبین" کی صورت میں ہونا چاہیے۔ دینی طلاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم ایک زبان پر عبور حاصل کریں، تاکہ تبلیغ و تحقیق کے میدان میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ آج کے دور کا بلاغِ مبین ذرائع ابلاغ (میڈیا) ہے اور دینی مدارس کو چاہیے کہ اس سے بھرپور استفادہ کریں۔









آپ کا تبصرہ