جمعرات 2 اکتوبر 2025 - 16:01
نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت ہمارے ہاتھوں میں یا دوسروں کے سپرد ؟

حوزہ / سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا دور ایسا زمانہ ہے جس میں کوئی مرکزیت باقی نہیں رہی۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی شخص اگر چاہے تو دوسروں کے لیے مواد تیار کر سکتا ہے۔ نہ وہ ہمارا انتظار کرتا ہے اور نہ ہی ہم سے اجازت لیتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I خواتین خاندان اور نظامِ ثقافت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، لیکن آج وہ سب سے زیادہ ثقافتی یلغار کی زد میں ہیں۔ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس اپنے مخرب پروگراموں کے ذریعے خاندان اور معاشرتی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی موضوع پر حجت الاسلام والمسلمین حسینعلی رحمتی (قرآن و حدیث ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں علم اخلاق کے محقق و استاد) نے تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔

ریالٹی شو"زن روز" (آج کی خواتین) اور بے معنی ہوتی ہوئی سرحدیں

ابھی "عشق ابدی" ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا ریالٹی شو "زن روز" یوٹیوب پر شروع ہوگیا۔ یہ پروگرام ترکی میں تیار ہورہا ہے اور اس کی میزبانی مہناز افشار (ایرانی اداکارہ) کر رہی ہیں۔ پروگرام کا اصل موضوع "فیشن اور اسٹائل" ہے، اور اس میں صرف نوجوان خواتین شریک ہوتی ہیں جو ہر بار ایک خاص لباس پہن کر ججوں کے سامنے پیش ہوتی ہیں۔

یہ پروگرام اور اس جیسے دوسرے شوز اخلاقی، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے کئی چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ذمہ دار ادارے ان کے اثرات کو سنجیدگی سے لیں، ان پر تحقیق کریں اور حل تلاش کریں۔

خواتین، اب بھی موضوعِ بحث؛ اور آئندہ مزید اہم

ایسے پروگراموں کا اصل ہدف خواتین اور خاص طور پر نوجوان لڑکیاں ہیں۔ سماجی و ثقافتی حالات کا جائزہ بتاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی خواتین اور لڑکیاں اہم ترین موضوع رہیں گی۔

آج کی نسل اپنی ماؤں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے:

زیادہ باشعور ہے، سماج میں زیادہ فعال ہے، اور روایتوں پر تنقیدی نظر ڈالتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو پہچانا جائے، ان کی دلچسپیوں اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب اور اسلامی ثقافت پر مبنی پروگرام بنائے جائیں تاکہ وہ غیر اخلاقی مواد سے محفوظ رہ سکیں۔

یہ سیلاب رکنے والا نہیں!

ذمہ دار اداروں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ فتنہ چند پروگراموں کے بعد ختم ہو جائے گا۔ اس صنعت میں سرمایہ اور شہرت اتنی زیادہ ہے کہ ہر روز نئے پروگرام سامنے آئیں گے۔

اسی طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ اگر ہم ان پروگراموں کو نظرانداز کریں تو یہ خود ہی بھلا دیے جائیں گے۔ انٹرنیٹ پر یہ مواد ہمیشہ باقی رہتا ہے اور آسانی سے دستیاب ہے۔ لہٰذا ہمیں لازمی طور پر ان کے مقابلے میں مثبت اور پرکشش پروگرام بنانا ہوں گے۔

"زن روز" (آج کی خواتین) طرزِ زندگی کی تبدیلی اور پوشیدہ پیغام

یہ پروگرام صرف لباس اور فیشن پر نہیں بلکہ ایک خاص طرزِ زندگی کو فروغ دیتا ہے جو ہمارے معاشرتی و دینی اقدار سے متصادم ہے۔ آہستہ آہستہ یہ تبدیلیاں ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہیں مگر چونکہ بتدریج ہیں، ہمیں ان کا احساس نہیں ہوتا۔

اسی لیے ضروری ہے کہ ثقافتی ادارے مسلسل تحقیق کریں اور بروقت مناسب ردعمل دکھائیں۔

لباس: صرف پردہ نہیں بلکہ ثقافتی علامت

"زن روز" (آج کی خواتین) جیسے پروگرام بنیادی طور پر لباس کو نشانہ بناتے ہیں۔ آج لباس صرف جسم ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ انسان کی فکر، تہذیب اور اخلاق کا مظہر ہے۔

ان پروگراموں میں وہ طرزِ پوشش دکھائی جاتی ہے جو ہماری دینی اقدار سے میل نہیں کھاتا۔ اور آہستہ آہستہ یہی فیشن ہمارے شہروں کی گلیوں میں نظر آنے لگتا ہے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں کے ذوق کو سمجھتے ہوئے، مقامی اور اسلامی تنوع کے ساتھ ایسے لباس متعارف کروائیں جو بیک وقت خوبصورت اور عفیف ہوں۔ اس مقصد کے لیے مقامی ڈیزائنرز اور پروڈیوسرز کی حمایت کی ضرورت ہے۔

جسم سے بیزاری؛ ایک گہرا مسئلہ

جدید دنیا میں "جسم" ایک مرکزی موضوع بن چکا ہے۔ خواتین میں پلاسٹک سرجری، پیکرتراشی اور آرائش کی بڑھتی ہوئی دوڑ اسی تبدیلی کی علامت ہے۔

یہ رجحان دراصل "بدن" کے بارے میں نئی قدریں پیدا کر رہا ہے جو اکثر ہمارے اخلاقی اصولوں سے ٹکراتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین اپنے جسم سے شرمندہ ہونے لگتی ہیں اور ان کا اعتماد کم ہو جاتا ہے۔

ان مسائل کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس نئی سوچ کی جڑوں کو پہچانا جائے اور پھر نوجوانوں کے ساتھ منطقی اور ہمدردانہ مکالمہ کیا جائے۔

نسلی تبدیلیاں: دروازے پر نہیں، اندر آ چکی ہیں

ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہوتی ہے، لیکن آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اس تبدیلی کو کئی گنا تیز کر دیا ہے۔

"زن روز" جیسے پروگرام ساز یہی حقیقت سمجھ کر مواد تیار کرتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی اس حقیقت کو نظرانداز کیا اور اسلامی ثقافت کی روشنی میں نئے اور پرکشش پروگرام نہ بنائے تو نوجوانوں پر اپنا اثر کھو بیٹھیں گے۔

نئے شوز کی آمد: وقت کم ہے

ابھی "عشق ابدی" اور "زن روز" کی گرد بیٹھی بھی نہیں کہ کینیڈا سے ایک اور پروگرام کے اعلان نے تہلکہ مچا دیا ہے، جو پہلے سے بھی زیادہ غیراخلاقی بتایا جا رہا ہے۔

چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی بے اثر ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں اور والدین کو ان پروگراموں کے نقصانات سے آگاہ کریں اور متبادل صحت مند تفریح فراہم کریں۔ ورنہ ہمارے نوجوان ان کے مستقل ناظرین بن جائیں گے۔

اخلاقی پیمانوں کا الٹ پھیر

یہ پروگرام نوجوانوں کے ذہن سے ہمارے دینی معیار کو مٹا کر نئے معیار قائم کر رہے ہیں۔

مثلاً: عفت، سادہ زیستی اور احترام کو بے وقعت دکھانا، جبکہ اسراف، بے راہ روی اور بدکلامی کو "قابلِ قبول" بنانا۔ یہی وجہ ہے کہ والدین، اساتذہ اور تمام دلسوز افراد کو چاہیے کہ دوستانہ مکالمے کے ذریعے نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔

حل: رابطہ، اعتماد اور متبادل مواد

آج کا زمانہ سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کا ہے۔ دنیا بھر میں ہر کوئی اپنا مواد خود بنا سکتا ہے۔ ہمیں نوجوانوں سے قریب ہونا ہوگا، ان کے ذوق کو سمجھنا ہوگا اور پرکشش متبادل فراہم کرنا ہوگا۔

یاد رکھیں:

نوجوان مسئلہ نہیں بلکہ حل کا حصہ ہیں۔ جب ان پر اعتماد کیا جائے گا تو وہ بھی اعتماد کریں گے۔جب ان کا احترام ہوگا تو وہ بھی احترام دیں گے۔ اور جب دوستی دکھائی جائے گی تو وہ خود شریکِ عمل ہوں گے۔ نسلِ جوان پر سرمایہ کاری دراصل مستقبل پر سب سے نفع بخش سرمایہ کاری ہے۔

نتیجہ: اگر ہم نے وقت ضائع کیا اور اس ذمہ داری سے غافل رہے تو ہماری نئی نسل کی اخلاقی تربیت بیگانہ اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں چلی جائے گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha