حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم اور امام جمعہ قم، آیت اللہ سید ہاشم حسینی بوشہری نے ایامِ فاطمیہ کے سلسلے میں منعقدہ مبلّغین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعض افراد بغیر معتبر اور روشن دلائل کے گفتگو کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تبلیغ کے دوران آپ کا خطاب یا تو قرآن پر مبنی ہو یا اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات پر۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات حقیقت کے منافی ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان نقل کیا: «إِنَّ فَاطِمَةَ صِدِّیقَةٌ شَهِیدَة»۔
انہوں نے کہا کہ تبلیغ کا اصل مفہوم معاشرے کو خدا اور اہلبیتؑ کی طرف لے جانا ہے۔ مبلّغ کا کام راستہ دکھانا، حقائق واضح کرنا اور معاشرے کو حقیقتِ الٰہی کی طرف دعوت دینا ہے۔
سربراہ جامعہ مدرسین نے مزید کہا کہ انبیائے الٰہی نے بھی تبلیغ کے سنگین بوجھ کے پیش نظر خدا سے مدد طلب کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا—«رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی…»—آج کے ہر مبلّغ کے لیے راہنما ہے۔
انہوں نے کہا کہ مبلّغ کی ذمہ داری ہے کہ اس کا پیغام نہ صرف درست ہو بلکہ مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ صرف چند محفوظات بیان کر دینا تبلیغ نہیں، بلکہ مطالعہ، گہرائی اور تحقیق لازمی ہے۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا کہ مبلّغ کو وسعتِ ظرف، تحمل اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض مخاطبین ممکن ہے دینی مباحث سے آشنا نہ ہوں، اس لیے ان سے گفتگو کے لیے شرحِ صدر ناگزیر ہے۔
انہوں نے آیۂ شریفہ «اَلَّذِینَ یُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّه» کی بنیاد پر کہا کہ تبلیغ ایک دائمی ذمہ داری ہے اور ہر دور میں مبلّغ اس خطاب کا مصداق بنتا ہے۔
انہوں نے قرآن کی آیت «وَلا یَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سچا مبلّغ فقط خدا سے ڈرتا ہے، نہ کہ معاشرے کے دباؤ یا ذاتی مصلحتوں سے۔ مبلّغ کی کامیابی اسی وقت ہے جب اس کا عمل خالصتاً خدا کے لیے ہو۔
سربراہ جامعہ مدرسین نے کہا کہ تبلیغ کا اصل مقصد خدا کا پیغام پہنچانا ہے، نہ کہ ذاتی رائے بیان کرنا۔ دین کے نام پر کوئی غیرمستند بات کہنا دینی حقائق کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کچھ لوگ بغیر تحقیق، مطالعہ یا معتبر ماخذ کے گفتگو کرتے ہیں، جو کہ دین اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ مبلّغ کو چاہیے کہ پہلے موضوع کو پوری طرح سمجھے، پھر اسے بیان کرے۔
آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا کہ مبلّغ کا کام اسی طرح نازک ہے جیسے کوئی شخص کانٹوں بھری زمین پر احتیاط سے چل رہا ہو۔ تقویٰ یہی ہے کہ انسان قدم قدم پر احتیاط کرے تاکہ دین کو نقصان نہ پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ تبلیغی سرگرمیوں میں Feedback لینا ضروری ہے۔ مبلّغ کو یہ جاننا چاہیے کہ اس کی بات مخاطب نے کس حد تک قبول کی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آج کا اسٹوڈنٹ ماضی کے اسٹوڈنٹ سے مختلف ہے، اس لیے مبلّغین کو موجودہ نسل کی ذہنی و سماجی کیفیت کو سمجھ کر گفتگو کرنی چاہیے۔









آپ کا تبصرہ