جمعرات 11 دسمبر 2025 - 11:00
زندگی حضرت فاطمہ الزہراء سلام الله علیہا

حوزہ/ اسلام حضرت زہراء جیسی برجستہ اور ملکوتی ہستی کو دنیا کی تمام عورتوں کیلئے نمونہ عمل کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ ان کی ظاھری زندگی جہاد، علم و دانش، زور بیان، خدا کاری، شوہر کی خدمت، ماں کا کردار، بہن کی حیثیت، ہجرت اور تمام سیاسی، انتظامی، عسکری اور انقلابی میدانوں میں کردار ادا کرتے گزری۔

تحریر: مزمل عباس انقلابی

حوزہ نیوز ایجنسی|

مقدمہ

جنت علی کے سجدہِ وافر کی ہے زکوۃ

دوزخ بتولِ پاک کی رنجش کا نام ہے

اسلام حضرت زہراء جیسی برجستہ اور ملکوتی ہستی کو دنیا کی تمام عورتوں کیلئے نمونہ عمل کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ ان کی ظاھری زندگی جہاد، علم و دانش، زور بیان، خدا کاری، شوہر کی خدمت، ماں کا کردار، بہن کی حیثیت، ہجرت اور تمام سیاسی، انتظامی، عسکری اور انقلابی میدانوں میں کردار ادا کرتے گزری۔آپ کا معنوی مقام رکوع، سجود، عبارت، دعا، تلاوت، تضرع و زاری، ملکوتی ذات اور معنویت بھری زندگی رسول خدا و امیر المومنین کے ہم پایہ اور مساوی ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ اسلام عورت کو جس مقام کا حامل دیکھنا چاھتا ھے، اسکے لیے حقیقی نمونہ یہی خاتون ہیں جیسے فاطمہ الزہراء کہا جاتا ھے۔(رہبر معظم ۱- ۱۹۹-۱۴)

اس عظیم شخصیت کی عام زندگی میں ایک اہم نکتہ جو پایا جاتا ہے وہ مختلف پہلوؤں کا آپ کی شخصیت میں جمع ہونا ہے۔ ایک مسلمان عورت کی طرح اپنے شوہر کی خدمت، اپنے بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ، کبھی نہ تھکنے والے ایک غیور مجاہد کی طرح اہم سیاسی مسائل سے نبردآزما ہونا، اپنے والد بزرگوار کی رحلت کے بعد مسجد نبوی میں تشریف لا کر خطبہ دینا اور اپنے موقف کا دفاع کرنا ھے ۔ یہ کردار ہر لحاظ سے ایک جہاد، عظیم الشان جہدوجہد کا متقاضی ہے۔ دوسری طرف آپ کی عبادت بھی اپنی مثال آپ ھے۔ فاطمہ الزہراء کی زندگی کا روشن ترین نکتہ یہ ہے کہ اپ کی زندگی میں یہ تینوں پہلو پائے جاتے ہیں اپ نے ان تینوں پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو شخص عبادت میں مشغول ہو جائے وہ بس ایک عابد ہی ہو سکتا ہے وہ ایک سیاسی انسان نہیں بن سکتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو سیاستدان ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں پیش پیش ہے وہ اگر عورت ہے تو پھر ایک گھریلو خاتون ایک بہترین ماں، بیوی اور بیٹی کا کردار ادا نہیں کر سکتی اور اگر وہ مرد ہے تو گھریلو مرد کی طرح کام کاج دکانداری اور زندگی کے دوسرے امور بخوبی ادا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں جبکہ حقیقت اسلام میں ہر پہلو ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ کامل انسان کی شخصیت میں مددگار ہے۔(رہبر معظم ۱۳ـ۱۲ـ۱۹۸۹)

حضرت فاطمہ الزہراء کی شخصیت تمام پہلوؤں میں ایک ممتاز و برجستہ شخصیت ہے۔دنیا کی برسر پیکار اور انقلابی یو برجستہ خواتین اپ کی زندگی سے درس حاصل کر سکتی ہیں۔ایک ایسی خاتون جس نے انقلاب کے گھرانے میں انکھ کھولی اور پورا بچپن ایک ایسے باپ کی اغوش میں گزارا جس کی پوری زندگی ایک عظیم الشان جہدوجہد سے عبارت تھی۔وہ معظمہ جو بچپن میں مکی دور میں سختیاں جھیل چکی ہوں شہب ابی طالب جانا پڑا ہجرت مدینہ کے بعد ایک ایسے شخص کی تحریک حیات بنی جس کی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزری۔اگرچہ اپ کی زندگی مختصر تھی لیکن اپ کی اس زندگی میں ایک عظیم سمندر پایا جاتا ہے۔حضرت فاطمہ الزہراء کی زندگی ہر ذہن میں ایک روشن مثال بن کر چمکتی رہے گی۔(رہبر معظم ۱۲ـ۰۱ـ۱۹۹۰)

ولادت با سعادت

شیخ طوسی نے مصباح میں اور اکثر علماء نے ذکر کیا ہے کہ فاطمہ الزہراء کی ولادت بیس جمادی الاولی کو ہوئی اور کہا کہ جمعہ کا دن اور بعثت کا دوسرا سال تھا اور بعض نے بعثت کا پانچواں سال کہا ہے۔ علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں فرمایا ہے کہ صاحب عدد نے روایت کی ہے کہ بعثت حضرت رسول کے پانچ سال بعد جناب فاطمہ حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ جناب فاطمہ الزہراء کی ولادت اس کیفیت میں ہوئی کہ جب مکہ کی عورتوں نے رسول خدا کی دشمنی کی وجہ سے جناب خدیجہ مکمل دوری اختیار کر لی تھی۔ جناب خدیجہ بالکل اکیلی ہوگئی تو فاطمہ زہراء شکم میں اپنی ماں سے باتیں کیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ جناب فاطمہ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو جناب خدیجہ نے قریش کی عورتوں کو بلوانے کے لیے کسی کو بھیجا تھا کہ ان کے پاس ہیں تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ اسی اثناء میں خوبصورت تو بلند کا مت عورتیں ان کے پاس آئیں جو بنی ہاشم کی عورتوں سے شباہت رکھتی تھی اور کہا کہ ہم خدا کی طرف سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے اور ہم تمہاری مدد کریں گے ان میں سے ایک سارا زوجہ ابراہیم، دوسری آسیہ بنت مزاحم، تیسری مریم بنت عمران، چوتھی کلثوم جو کہ موسٰی بنت عمران کی بہن ہے۔ اس طرح فاطمہ الزہراء پاک و پاکیزہ متولد ہوئیں۔(احسن المقال جلد اول صفحہ 164)

القاب سیدہ

حضرت صادق نے فرمایا کہ خدا کے نزدیک جناب فاطمہ کے نو نام ہیں۔ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔

علامہ مجلسی نے اس حدیث کے ترجمہ کے ذیل میں فرمایا ہے کہ:

1۔صدیقہ کا معنی معصومہ ہے اور مبارکہ کا معنی علم و فضل کمالات و معجرات یعنی دوسری اولاد کرام میں برکت ہوتا ہے۔

2۔طاہرہ یعنی نقائص سے پاک۔

3۔زکیہ یعنی کمالات وخیرات میں نشو و نما پانے والی۔

4۔راضیہ یعنی قضاء الہی پر راضی۔

5۔مرضیہ یعنی پسندیدہ خدا و دستان خدا۔

6۔محدثہ یعنی فرشتے ان کے ساتھ باتیں کرتے تھے۔

7۔زہرا یعنی نورصورت اور معنی دونوں کے اعتبار سے۔احادیث متواترہ میں روایت ہے کہ آنحضرت کو فاطمہ کا نام اس لیے دیا گیا کہ حق تعالی نے انہیں اور انکے شیعوں کو جہنم کی آگ سے بچالیا ہے۔ روایت ہے کہ رسول خدا سے پوچھا گیا کہ فاطمہ کو آپ کس وجہ سے بتول کہتے ہیں فرمایا چونکہ جو خون دوسری عورتیں دیکھتی ہیں وہ یہ نہیں دیکھتیں۔(احسن المقال جلد اول صفحہ 167)

فضائل و مناقب

سیدہ زہرا کے فضائل و مناقب اس سے زیادہ ہیں کہ یہاں بیان ہو چونکہ ہم مختصر لکھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تو تسبح فاطمہ مشہور ہے کہ جس کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور جو شخص اس تسبیح کو پڑھا کرے گا وہ شقی و بداعاقبت نہیں ہوگا اور حضرت صادق کے نزدیک ہر نماز کے بعد اس کا پڑھنا ہر روز ہزار رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور زیادہ مشہور طریقہ اس کا یہ ہے۔ چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیسں مرتبہ الحمداللہ اور تینتیس مرتبہ سبحان اللہ۔

ان میں سے دوسرا دعائے نور ہے۔ جو سیدہ فاطمہ نے سلمان فارسی کو تعلیم فرمائی تھی اور فرمایا اگر چاہتے ہو کہ تمہیں کبھی بخار نہ آئے تو اس کو پڑھا کرو اور اسے کبھی ترک نہ کرو اور وہ دعا یہ ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم بسم الله النور بسم الله نور النور بسم الله نور على نور بسم الله الذي هو مدبر الامور بسم الله الذي خلق النور من النور الحمد الله الذي خلق النور من السور و انزل النور على النظر في كتاب مسطر في رقي منشور بقدر مقدور على بنی محبور الحمد الله الذي هو بالعز مذکور و بالفجر مشھور و علی السراء و الضراء مشکور وصلى الله على سيدنا محمد وآله الطاهرين.

سلمان فارسی کہتے ہیں جب یہ دعا میں نے جناب فاطمہ سے سیکھی تو خدا کی قسم میں نے وہ دعا مکہ ومدینہ کے ایسے ایک ہزار سے زیادہ افراد کو سکھائی جو بخار میں مبتلا تھے۔ ان سب کو شفاء حاصل ہوئی۔ ایک سیدہ زہرا کی نماز استغاثہ ہے کہ جس کے متعلق روایت ہے کہ جب تمہیں خدا کے دربار کوئی حاجت ہو اور تمہارا سینہ اس سے تنگ ہو تو دو رکعت نماز پڑھو جب سلام پھیرو تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہو اور تسبیح حضرت فاطمہ پڑھو پھر سجدہ میں جا کر سو مرتبہ کہو یا مولاتی یا فاطمہ اغیثنی پھر دایاں رخسار زمین پر رکھ کر یہی کلمات سو مرتبہ کہو پھر سر سجدہ میں رکھ کر سو مرتبہ کہو پھر بایاں رخسار زمین پر رکھ کرسو مرتبہ یہی کہو پھر سرسجدہ میں رکھ کر ایک سو دس مرتبہ کہو اور اپنی حاجت بیان کرو انشاء اللہ خدا تمہاری حاجت پوری کرے گا اور ایک چیز محدث فیض نے خلاصتہ الاذکار میں نقل کی ہے کہ حضرت فاطمہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم میرے پاس تشریف لائے جب میں بستر بچھا چکی تھی اور سونا چاہتی تھی تو فرمایا اے فاطمہ اس وقت تک نہ سویا کرو جب تک چار عمل بجانہ لاؤ۔ قرآن ختم کرو۔ انبیاء کو اپنا شفیع قرار دو۔ مومنین کو اپنے سے خوش کرو اور حج وعمرہ بجالاؤ ۔ یہ فرما کر آپ نے نماز شروع کردی۔ میں رُک گئی یہاں تک کہ آپ نے نماز تمام کی تو میں نے عرض کیا اے خدا کے رسول آپ نے ایسے چار امور کا مجھے حکم دیا ہے کہ جن کے بجالانے کی میں اس وقت قدرت نہیں رکھتی۔ آنحضرت نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا۔ جب تم تین مرتبہ قل ھواللہ احد پڑھ لو گویا قرآن ختم کر لیا ہے اور جب مجھ سے پہلے گذشتہ انبیاء پر صلوۃ بھیجو تو ہم قیامت کے دن تمہارے شفیع ہو جائیں گے اور جب مومنین کے لیے استغفار کرو تو وہ سب تم سے خوش ہو جائیں گے اور جب سبحان اللہ والحمد للہ ولا اله الا اللہ واللہ اکبر کہو تو گویا حج وعمرہ بجالائی ہو۔(احسن المقال جلد اول صفحہ 170)

شادی و اولاد

حضرت فاطمہؑ کے لئے بہت سے رشتے تھے۔ لیکن آپ نے حضرت علی کا رشتہ قبول کیا اور ان سے شادی کی۔بعض بزرگان قریش جو سابق الاسلام اور مالی اعتبار سے مضبوط تھے، انہوں نے رشتہ طلب کیا لیکن رسول اللہؐ نے سوائے حضرت علیؑ کے باقی سب کا رشتہ یہ فرماتے ہوئے مسترد کیا کہ میری بیٹی فاطمہؑ کا رشتہ ایک الہٰی امر ہے لہذا اس حوالے سے میں وحی کا منتظر ہوں۔ ہجرت کے ابتدائی ایام میں دوسرے مہاجرین کی طرح حضرت علیؑ کی اقتصادی حالت بھی مناسب نہیں تھی۔اس بنا پر آپؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر اپنی زرہ بیچ کر یا اسے گروی رکھ کر حضرت فاطمہؑ کا حق مہر ادا کیا۔ یوں مسجد نبوی میں مسلمانوں کی محفل میں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا عقد پڑھا گیا۔ مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ عقد کس تاریخ کو پڑھا گیا۔ اکثر مصادر میں ہجرت کے دوسرے سال کا تذکره ملتا ہے۔رخصتی جنگ بدر کے بعد شوال یا ذوالحجہ سنہ 2 ہجری میں ہوئی۔(بحور الغمہ جلد اول )

شیعہ اور اہل‌ سنت دونوں مصادر کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ امام حسنؑ، امام حسینؑ، حضرت زینبؑ اور ام‌ کلثوم حضرت فاطمہؑ اور امام علیؑ کی اولاد ہیں۔ شیعہ اور بعض اہل سنت مصادر میں ایک اور بیٹے کا نام بھی ملتا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث میں سقط ہوگیا جس کا نام محسن یا مُحَسَّن ذکر ہوا ہے۔(مفید، الإرشاد ج1 ،کتاب سلیم بن قیس)

شہادت جناب سیّدہ

یادر ہے کہ سیدہ طاہرہ کی شہادت کے سلسلہ میں بہت اختلاف ہے۔ احقر کے نزدیک آپ کی وفات تین جمادی الثانیہ کو ہوئی ہے۔ پدر بزرگوار کے بعد آپ پہچانوے دن زندہ رہیں اگر چہ یہ بھی روایت ہے کہ سیدہ باپ کے بعد پچھتر دن دنیا میں زندہ رہیں۔ بہتر ہے کہ دونوں طریق پر اس بی بی کی مصیبت و عزاداری قائم کی جائے جیسا کہ آج کل معمول ہے۔ بہر حال آپ اپنے والد کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں اور ہمیشہ نالاں دگریاں رہیں۔ اس تھوڑی سی مدت میں اتنی اذیت آپ کو پہنچی کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ کتاب روضۃ الواعظین وغیرہ میں روایت کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ بیمار ہوئیں۔ ان کی بیماری نے چالیس دن تک طول کھینچا جب آپ نے اپنی وفات کو محسوس کیا تو ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کو بلایا اور انہیں بھیجا کہ حضرت امیر المومنین کو بلا لائیں جب حضرت امیر المومنین تشریف لائے تو عرض کیا کہ اے پسر عم آسمان سے مجھے میری وفات کی خبر آ پہنچی ہے اور میں سفر آخرت کرنے والی ہوں ۔ آپ کو چند چیزوں کے متعلق وصیت کرتی ہوں جو میرے دل میں ہیں۔ آپ نے فرمایا اے رسول کی بیٹی جو چاہو وصیت کرو۔ اے امیر المومنین میں آپ کو پہلی وصیت یہ کرتی ہوں کہ میرے بعد امامہ کے ساتھ عقد کرنا کیونکہ مرد کے لیے بیوی کے بغیر چارہ کار نہیں ۔ وہ میری اولاد کے لیے میری طرف ہوگی ۔ پھر عرض کیا میرے لیے تابوت بنانا۔ میں نے ملائکہ کو دیکھا ہے کہ انہوں نے تابوت کی شکل میرے لیے بنائی ہے۔ فرمایا مزید آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کو میرے جنازے پر نہ آنے دنیا جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق غصب کیا ہے کیونکہ وہ میرے اور رسول کے دشمن ہیں اور ان میں سے اور ان کے پیرو کار میں سے کسی ایک کو میرے جنازہ پر نماز نہ پڑھنے دینا اور مجھے رات کے وقت دفن کرنا اور کشف الغمہ وغیرہ میں روایت ہے کہ جب جناب فاطمہ کی وفات قریب آئی تو آپ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا کہ پانی لے آؤ تا کہ میں غسل کروں پس آپ نے وضو کیا اور ایک روایت ہے کہ بہترین طریقہ سے غسل کیا اور خوشبو منگوا کر لگائی نیا لباس منگوا کر پہنا اور فرمایا اے اسماء میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل چالیس درہم کافور بہشت سے لائے تھے حضرت نے اسے تین حصوں میں تقسیم فرمایا۔ ایک حصہ اپنے لیے رکھ لیا تھا۔ ایک میرے لیے اور ایک حصہ علی کے لیے۔ وہ کافور لے آؤ تا کہ مجھے اس سے حنوط کریں۔ جب وہ کافور لے آئی تو فرمایا اسے میرے سرہانے رکھ دو۔ پھر آپ نے اپنے پاؤں قبلہ کی طرف دراز کیسے اور لیٹ گئیں اور اوپر کپڑا ڈال لیا اور فرمایا اے اسماء ایک لحظہ صبر کرنا پھر مجھے آواز دینا اگر میں جواب نہ دوں تو علی کو بلانا اور سمجھ لینا میں اپنے پدرعالی قدر کے پاس چلی گئی ہوں۔ اسماء نے کچھ دیر توقف کیا اس کے بعد سیدہ کو آواز دی تو جواب نہ ملا۔ پس کہنے لگی۔ اسے مصطفیٰ کی بیٹی ! اے اولاد آدم میں سے بہترین کی شہزادی اے زمین پر چلنے والوں میں سے بہترین کی بیٹی اے اس کی بیٹی جو شب معراج قاب قوسین و ادنی کے مقام پر پہنچا۔ جب کوئی جواب نہ آیا آپ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا۔ کیا دیکھتی ہیں کہ روح پرفتوح ریاض جناں کی طرف پرواز کر چکی ہے۔ پس وہ ان کے بوسے لیتی تھی اور کہتی تھی کہ جب رسول خدا کی خدمت میں جاؤ تو اسماء بنت عمیس کا سلام عرض کرنا ۔ اسی اپناء میں امام حسن اور امام حسین گھر میں داخل ہوئے اور کہنے لگے اسماء اس وقت ہماری ماں کیوں سوئی ہوئی ہیں ۔ اسماء نے عرض کیا سوئی ہوئی نہیں بلکہ وہ تو رحمت رب الارباب میں جا پہنچی ہیں۔ امام حسن نے اپنے آپ کو ماں کے اوپر گرادیا اور ان کے چہرہ انور کے بوسے لینے لگے اور کہتے کہ اے مادر گرامی مجھ سے بات کریں۔ اس سے پہلے کہ میری روح بدن سے نکلے اور امام حسین ماں کے پاؤں پر گرے بوسے لیتے تھے اور کہتے مادر گرامی ! میں آپ کا بیٹا حسین ہوں ۔ مجھ سے بات کریں۔ ورنہ میرا دل پھٹ جائے گا پس اسماء نے کہا اے رسول خدا کے جگر گوشوں جاؤ اور اپنے پدر گرامی کو بلا لاؤ اور ماں کی موت کی خبر انہیں سناؤ ۔ پس شہزادے گھر سے باہر نکلے جب مسجد کے قریب پہنچے تو بلند آواز سے رونے لگے ۔ شہزادے کہنے لگے ہماری ماں نے دنیا سے کوچ کیا ہے۔جب حضرت امیر المومنین نے یہ خبر وحشت اثر سنی تو آپ صدمہ سے بیہوش ہو گئے۔لوگوں نے آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا تو آپ ہوش میں آئے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بعد اپنے آپ کو کس سے تسلی دوں گا۔ مولا علی علیہ السّلام نے سیدہ کو غسل کو کفن دیا اور رات کی تاریکی میں دفن کیا۔آپ کے مقام قبر میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں قبور آئمہ علیہم السلام کے پاس بقیع میں ہے اور بعض کہتے ہیں حضرت رسالت مآب کی قبر اور ان کے منبر کے درمیان مدفون ہیں کیونکہ حضور اکرم نے فرمایا تھا۔ کہ میری قبر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ انہیں ان کے گھر ہی میں دفن کیا گیا یہ قول زیادہ صحیح ہے جیسا کہ روایت صحیح اس پر دلالت کرتی ہیں۔ (احسن المقال جلد اول صفحہ 172)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha