حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزۂ علمیہ میں درسِ خارج کے استاد، حجتالاسلام احمد عابدی نے ماہِ رجب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اس مہینے کی فضیلت اور اعمال سے متعلق متعدد روایات کی طرف اشارہ کیا۔ ان کے مطابق ماہِ رجب عبادت، دعا اور روحانی مواقع سے بھرپور ایک ایسا زمانہ ہے جو انسان کے تعلق کو خداوندِ متعال کے ساتھ مضبوط بناتا ہے۔
بعض روایات کے مطابق ماہِ رجب کو «ماہِ خدا» کہا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کتاب مفاتیح اور متعدد روایات میں یہ تعبیر ملتی ہے۔
اسی طرح روایات میں نقل ہوا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: «رجب میرا مہینہ ہے اور شعبان رسولِ خدا ص کا مہینہ ہے»
اور کئی روایات میں ماہِ رجب کو خاص طور پر امیرالمؤمنین علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے۔
تاہم اس بحث سے ہٹ کر کہ ماہِ رجب کو ماہِ خدا کہا جائے، یا ماہِ رسولؐ یا ماہِ امیرالمؤمنینؑ، سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔
اس مہینے کے لیے ایک معروف تعبیر «رجبُ الأصمّ» بھی استعمال ہوئی ہے۔ اس کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ ماہِ رجب وہ مہینہ ہے جس میں جنگ، خونریزی، جھگڑا اور ہر قسم کی لڑائی ممنوع تھی، یہاں تک کہ لوگ اپنے ہتھیار اور زرہیں بھی ایک طرف رکھ دیتے تھے۔
یعنی اس مہینے میں جنگ و جدال کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور اگر کوئی اس زمانے میں ایسی حرکت کرتا تو اس کا گناہ کہیں زیادہ سنگین سمجھا جاتا تھا۔
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جس طرح شبِ قدر کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی طرح ماہِ رجب میں بھی ایک ایسی رات ہے جو سال کی تمام راتوں سے افضل ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ رات ستائیسویں رجب کی رات ہو۔
عبادت اور ثواب کے اعتبار سے ماہِ رجب بے شمار فضیلتوں کا حامل ہے۔
جس طرح ماہِ رمضان میں ہزار رکعت مستحب نماز کا ذکر ملتا ہے "جسے اہل سنت تراویح کی صورت میں ادا کرتے ہیں، حالانکہ فقہِ شیعہ میں نمازِ تراویح نہیں ہے" اسی طرح ماہِ رجب میں بھی ہزار رکعت مستحب نماز نقل ہوئی ہے۔
فرق یہ ہے کہ ماہِ رمضان کی مستحب نمازوں کا طریقہ زیادہ تر یکساں ہے، جبکہ ماہِ رجب کی نمازیں مخصوص اذکار اور سورتوں کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ماہِ رجب کی پہلی رات ۳۰ رکعت مستحب نماز دو رکعت کر کے نقل ہوئی ہے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ حمد کے بعد بارہ مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھا جاتا ہے۔
اسی طرح اس مہینے کی کئی راتوں اور دنوں میں خاص نمازیں، مخصوص اذکار اور سورتوں کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
نمازوں کے علاوہ ماہِ رجب میں وارد ہونے والی دعائیں بھی بہت زیادہ ہیں؛ جیسے عملِ اُمِّ داوود، اعتکاف، اور وہ دعائیں جو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے اس مہینے میں نقل ہوئی ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس درجے کی دعائیں حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں بھی کم ملتی ہیں۔
یہ بھی نقل ہوا ہے کہ زمانۂ جاہلیت، یعنی اسلام سے پہلے بھی ماہِ رجب کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ اگر دو افراد کے درمیان کوئی اختلاف ہوتا تو ایک دوسرے سے کہتا:“میں ماہِ رجب میں تم پر بددعا کروں گا”۔
یعنی اس مہینے کو اتنا مؤثر سمجھا جاتا تھا کہ دعا یا بددعا کو اس میں فیصلہ کن مانا جاتا تھا، چاہے وہ خیر کے لیے ہو یا شر کے لیے۔
روایات کے مطابق ماہِ رجب میں تمام ائمۂ اطہار علیہم السلام کی زیارت مستحب ہے۔ خاص طور پر امام رضا علیہ السلام کی زیارت پر زور دیا گیا ہے، البتہ دیگر ائمہ کی زیارت بھی اس مہینے میں سفارش شدہ ہے۔
ماہِ رجب میں روزہ رکھنا بھی بہت اہم عمل ہے۔ اس مہینے کے ہر دن کے لیے الگ الگ فضیلت اور اجر بیان ہوا ہے؛ پہلے دن سے لے کر آخری دن تک ہر روز کے لیے مخصوص روایات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ساتویں، آٹھویں اور نویں رجب کے روزوں کی فضیلت پر بھی متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
یہ تمام اعمال دینی اقدار اور مقدسات کا حصہ ہیں، کیونکہ یہ انسان کو خداوندِ متعال، معصومین علیہم السلام اور اولیائے الٰہی سے جوڑتے ہیں۔ دعا، ذکر اور روحانی تعلق انسان کی زندگی کو سنوارنے والے بنیادی عوامل ہیں۔
اس کے برعکس صرف علمی مشغولیت—چاہے وہ عقائد اور فقہ ہی کیوں نہ ہو—اگر روحانیت سے خالی ہو تو بعض اوقات انسان کو محض علمی اعتراضات اور تنقید کی فضا میں لے جاتی ہے، جس سے دل میں ایک طرح کی تاریکی پیدا ہو سکتی ہے۔
روایات میں آیا ہے:«العِلمُ هو الحِجابُ الأکبر»
یعنی اگر علم کے ساتھ معنویت نہ ہو تو وہ خود سب سے بڑا پردہ بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دعا اور ذکر کو اس پردے کو ہٹانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
ماہِ رجب کی دعاؤں کے بارے میں مختلف کتابوں میں تفصیلی بحثیں موجود ہیں، جیسے مرحوم آیت اللہ شوشتریؒ کی کتاب «الأخبار الدخیلة»۔
اہل سنت کے حوالے سے بھی ذکر ملتا ہے کہ ان کے ہاں دعا کا وہ رواج نہیں جو شیعہ معاشرے میں پایا جاتا ہے، بلکہ وہ زیادہ تر قرآن کی تلاوت پر زور دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بعض اہل سنت جبر کے قائل ہیں، اور جبر کا نظریہ دعا کے اثر کو کم کر دیتا ہے۔
اس کے باوجود، اہل سنت کی بعض کتابوں مثلاً «الأذکار» میں ماہِ رجب کی کئی دعائیں اور استغفار نقل ہوئے ہیں، جو اس مہینے میں ذکر و دعا کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔
لہٰذا ماہِ رجب کے اذکار اور دعائیں دینی اقدار کا اہم حصہ ہیں اور ان پر خاص توجہ دینا چاہیے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے کہ بعثت سے پہلے جب رسول اکرم ص غارِ حرا میں عبادت کے لیے خلوت اختیار کرتے تھے "جسے «یتحنّث» کہا جاتا ہے" تو حضرت خدیجہ رات بھر دروازہ بند کر کے طلوعِ فجر تک ذکر و ورد میں مشغول رہتی تھیں۔
یہ روایت بتاتی ہے کہ ذکر و ورد صرف اسلام کے بعد نہیں، بلکہ بعثت سے پہلے بھی ان مقدس ہستیوں کے ہاں رائج تھا۔
عام طور پر کسی دعا یا آیت کو جو انسان مسلسل پڑھتا رہے «وِرد» کہا جاتا ہے۔
اسی لیے ماہِ رجب کو ذکر کا مہینہ، ورد کا مہینہ، استغفار کا مہینہ اور مستحب نمازوں کا مہینہ کہا جا سکتا ہے۔









آپ کا تبصرہ