تحریر: غلام محمد شاکری
حوزہ نیوز ایجنسی| اگرچہ وقت کے حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کچھ چیزوں کو زیادہ احترام اور تقدس عطا کر کے ایک خاص خصوصیت کے ساتھ بنایا ہے کہ دوسری چیزوں میں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ کچھ مہینوں کو دوسرے مہینوں پر برتری دینے کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے ان ایام کی زیادہ تقدس اور بے احترامی کو زیادہ لحاظ رکھا ہے اور ان دنوں میں حق کی نافرمانی اور گناہوں کا ارتکاب زیادہ سخت سزا کا باعث ہوگا اور ان میں نیکیوں کا دوگنا ثواب ملے گا۔ اور کچھ مومنین اور عقیدت مند حضرات ایسے اوقات کو درک کرنے اور اس کا احترام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہیں کہ ان ایام میں خدا کی یاد، عبادت اور دعا میں مشغول رہتے ہیں اور درحقیقت وہ ایسے قیمتی لمحات کی خوبیوں سے لطف اندوز ہونے کی اندرونی خواہش محسوس کرتے ہیں اور وہ اس دلی خواہش کی پھلنے پھولنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، لہٰذا جو شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں مہر الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر قوت کو بروئے کار لائے تاکہ وہ ایسے تابناک وقتوں میں غافل نہ ہو جائے، کیونکہ یہ خیرات اور لین دین کا ایسا باوقار موسم ہے جس کے لیے بہت سے فائدے ہیں، بصورت دیگر کامیابی اور نجات سے محروم ہو جائے گا اور متقیوں کی قافلے سے دور ہو جائے گا۔
موسم رحمت:
ہجری قمری سال کا ساتواں مہینہ رجب کہلاتا ہے، سال کے بارہ مہینوں میں سے رجب کا مہینہ ایک خاص تقدس کا حامل ہے قرآن مجید میں جن چار مہینوں کو "حرم" سے یاد کیا ہے۔
"إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ"(1) ان میں ایک رجب کا مہینہ ہے کہ جس میں لڑائی اور قتل حرام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رجب اللہ تعالیٰ کا عظیم مہینہ ہے اور کوئی مہینہ حرمت اور فضیلت میں اس کے برابر نہیں ہے، اور اس مہینے میں کفار سے جنگ حرام ہے، آگاہ رہو کہ رجب خدا کا مہینہ ہے، اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے اور جو شخص ماہ رجب میں ایک دن بھی روزہ رکھے تو خدا کو راضی کیا اور خدا کا غضب اس سے دور ہوجائے گا (2)ساتویں سرکار (ع) نے فرمایا: رجب جنت میں ایک نہر کا نام ہے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ جس نے ایک دن اس مہینے میں روزہ رکھا خدا اس نہر سے اس کو پیلائے گا۔ (3) امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رجب میری امت کے لیے بخشش طلب کرنے کا مہینہ ہے، لہٰذا اس مہینے میں استغفار کیا کرو، کیونکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے، اور ماہ رجب کو " اصب" کہلاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس مہینے میں میری امت پر بہت زیادہ رحمتیں نازل کرتا ہے، اس لیے استغفر اللہ و اسئلہ التوبہ کثرت سے کہیں (4)۔جب سمندر موج زن ہوں، نہریں بہہ رہی ہوں اور درخت اگ رہے ہو، تو عرب والے کہتے تھے کہ رجب کا موسم آیا ہے، اس مہینے کا احترام کرتے تھےاور اس میں جنگ اور خونریزی سے اجتناب کرتے تھے، اور "رجبتہ ترجیبا" کا مطلب بزرگ داشت اور احترام کے ہیں اور اس مہینے کو "رجب مضر" بھی کہتے تھے، کیونکہ "مضر" قبیلہ اس مہینے کا دوسرے قبائل سے زیادہ احترام کرتا تھا۔ (5) پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) سے منقول روایات میں "رجب" کے چند نام مذکور ہیں، ان میں "رجب الفرد الاصب" بھی ہے کیونکہ اس مہینے میں خدا کی رحمتیں، بارش کی طرح اس کے بندوں پر پڑتی ہے، اس مہینے کو "اصم" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے شاید کوئی مہینہ اس کی برابری کرسکے، اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا احترام اور تعظیم کی جاتی تھی۔ رجب کو "شہرِ الاستغفار" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اس وقت خدا کے بندے استغفار اور مغفرت کی طلب کر کے گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں اور خدا کی رحمت کے قریب ہو جاتے ہیں۔اور اپنے دلوں سے برائیوں کو دور کرتے ہیں۔ کچھ روایت میں اس مہینے کو "شہر امیر المومنین" کہا گیا ہے یعنی ولایت کا مہینہ، کیونکہ 13 رجب کو امام متقین اور پرہیزگار لوگوں کے پیشواء کی ولادت ہوئی ہے، جس طرح شعبان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مہینہ کہا جاتا ہے اور رمضان المبارک کو خدا کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ رجب کو " حبل اللہ " بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خدا کی رحمت اور خدا کے فضل کی رسی ہے، کیونکہ خدا کی رحمت اور خدا کے فضل کی رسی عالم ملکوت سے بندوں کے لئے لٹکائی گئی ہے تاکہ جو کوئی اس کے ذریعے قرب الہی کی راہ تلاش کرے (6) خاتم الانبیاء سے منقول ہے: خدا ہے ساتویں آسمان پر "داعی" نامی فرشتے کے ذریعے۔ جب رجب کا مہینہ آتا ہے تو اس کی تمام راتوں میں شروع سے صبح تک، اس طرح پکارتی ہے: یاد کرنے والو، اطاعت کرنے والو، استغفار کرنے والو، بخشش مانگنے والو،خوش خبری، خوش خبری ، میں ایسے شخص سے واقف ہوں جو میرے ساتھ رہے گا اور میں اس کا فرمانبردار ہوں، جو میری پیروی کرنے والا ہوں، میں بخشنے والا ہوں جو مجھسے مانگنے والا ہوں، یہ میرا مہینہ ہے اور بندہ میرا بندہ ہے اور رحمت میری رحمت ہے، جو اس مہینے میں مجھے پکارے گا میں اسے جواب دوں گا اور جو مجھ سے کچھ مانگے گا میں اس کی خواہش پوری کروں گا۔ اگر وہ مجھ سے کوئی راستہ پوچھے گا تو میں اس کی رہنمائی کروں گا، میں نے اس مہینے کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تعلق کا واسطہ بنایا ہے، جو اس تک پہنچے گا وہ مجھ تک پہنچے گا۔ (7)
روحانی عروج:
حقیقی نماز اور اس عبادت کا باطنی پہلو بھی انسان کی روح کو جلا.بخشتا ہے جیسا کہ روایات میں نماز کو مومن کے معراج قرار دیا ہے لیکن رجب کے مہینے میں اس فرض کو ادا کرنا انسان کی روحانی ترقی کو دوگنا کردیتا ہے۔ اور اسے مزید کامیابی کے ساتھ بلندیوں کی طرف پرواز کر کے عرشیوں اور قدسیوں سے آشنا ہونے کا باعث بنتا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ماہ رجب میں ساٹھ رکعت نماز پڑھے، ہر رات کو دو دو رکعت نماز بجا لائے اور ہر رکعت میں ایک حمد اور تین بار قل یا ایھا الکافرون اور ایک مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھے اور سلام کرنے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور سرگوشی کے ساتھ منقول دعائیں مانگیں۔ (8)، ان نمازوں کو ادا کرنے کے بعد اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ نماز شب تک ایسے کام کرے جو اس کے روحی حالت کے مطابق ہوں پھر وہ نماز شب پڑھے، اور آٹھویں رکعت کے بعد سجدے میں جائے، اور اسی حالت میں وہ دعائیں مانگے جو کتاب اقبال الاعمال میں امام معصوم (ع) سے نقل ہوا ہے اور اسے اس کے مندرجات پر بھی توجہ کرنی چاہئے اور وتر کی نماز کے بعد بھی وہ دعائیں پڑھے جو مزکورہ کتاب میں درج ہے. (9) سید ابن طاووس نے اپنی مشہور کتاب اقبال الامال میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص ماہ رجب میں ایک دن کا روزہ رکھے اور چار رکعت نماز پڑھے اور پہلی رکعت میں 100 مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اور دوسری رکعت میں دو سو مرتبہ قل ہو اللہ احد کہے، اس کی موت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک وہ جنت میں اپنا مقام نہ دیکھ لے۔(10)
فضیلت کی بلندی
1 رجب:
ماہ رجب کی پہلی رات بہت بابرکت ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ جو شخص اس مہینے کو سمجھے اور اس کے شروع، درمیان اور آخر میں غسل کرے تو وہ گناہوں سے آزاد ہو جائے گا۔
اس رات کے اعمال:
1 نماز مغرب کے بعد بیس رکعت نماز پڑھنے کی بھی سفارش کی گئی ہے جس ترتیب سے دعائیہ کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے
2 زیارت امام حسین علیہ السلام
3 احیاء
شیخ طوسی نے "مصباح المتہجد" میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت علی علیہ السلام، چار راتوں میں احیاء کرنے کو زیادہ پسند کرتے تھے جن میں سے ایک رجب کی پہلی رات تھی۔
4۔ منقول دعائیں پڑھنا
رجب کا مہینہ دیکھتے ہی خصوصی دعائیں پڑھنے کا حکم ہے مناسب ہے کہ راہِ حق کا متلاشی ان دعاوں میں شعبان اور رمضان کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ ان دو مہینوں کو خوبی کے ساتھ قبول کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تیاری اور توفیق عطا فرمائے۔(11)
5 روزہ
اس مہینے کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھنے کے بھی بہت سے ثواب ہیں اور روایت ہے کہ اس دن حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھ والوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا، حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: پہلی جمعہ کی رات سے غافل نہ رہو۔ کیونکہ فرشتے اسے لیلۃ الرغائب کہتے ہیں۔ جب اس رات کا ایک تہائی حصہ بھر جاتا ہے، فرشتے خانہ کعبہ اور اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے: میرے فرشتو!، تم کیا چاہتے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہماری درخواست ہے کہ آپ رجب کے روزے داروں کو معاف کر دیں، خدا فرماتا ہے: میں نے معاف کر دیا۔
رحمت کی پہلی نگین:
رجب انسانیت اور خدائے واحد کی محبت سے معمور ہے اور امام محمد باقر علیہ السلام اس بابرکت مہینے کا پہلا نگین رحمت ہے، رجب کے شروع سے دین و علم کا سورج روئے زمین کی اداس روحوں کو روحانی حرارت بخشنے کے لئے ہدایت کے افق سے امامت کے چھٹے کڑی نمودار ہوئے۔ کون ہے وہ جو اس مقدس مہینے کے ساتھ انس رکھے لیکن امام رجب کی معرفت نہ رکھیں۔ 57 ہجری ماہ رجب کی پہلی تاریخ بروز جمعہ مدینہ منورہ میں ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام محمد تھا اور اس کی کنیت ابو جعفر اور باقر العلوم اس کا لقب تھا اور پیدائش کے وقت ہی وہ عظمت اور رفعت کا پیکر تھے۔ ( 12)
3 رجب غروب خورشید:
3 رجب سنہ 254 ھ کو آسمان امامت کی دسویں کڑی 33 سال کی علمی و ثقافتی جدوجہد اور دین کی حفاظت کے بعد رجب المرجب 254 ہجری کے تیسرے دن، جب کہ آپ کی مبارک زندگی کے 41 سال اور چند ماہ گزر چکے تھے، معتز عباسی کی سازش سے امام ہادی علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ اور جب امام عسکری علیہ السلام نے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھائی تو ان کے مقدس جسد کو سامرہ میں ان کے گھر میں دفن کیا گیا اور ان کا حرم مقدس آج تک آسمانوں زیادہ سربلند ہے۔ (13)
10 رجب:
10 رجب 195 ہجری کو جمعہ کی صبح کی ہوا چلتی ہے اور عاشقانِ ولایت کی رہبری کے لیے ایک اور مشعل ہدایت پھر سے روشن ہوجاتی ہے، ایک جود و سخا اور کرامت سے سرشار زندگی جو دنیا کی عظمتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔ جواد الائمہ وہ تقویٰ کا مجسم پیکر اور چراغ عالم افروز اس پستی ہستی پر احسان کرتے ہوئے اس طرح جلوہ افروز ہوجاتا ہے کہ ساری کائنات اس شاہانہ وجود کی تشریف آوری کی آرزو رکھتی ہے اور فرشتے اس کے نورانیت بھرپورچہرے کی طرف دیکھنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں اور جس سے ہدایت کے چراغوں کو روشنی ملے گا اور طالبان کمال کے لیے حق مظہر نمودار ہوا۔ امام رضا علیہ السلام نے شیعوں کو ان کے بچے کی ولادت کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا: خدا نے مجھے ایک ایسا بچہ عطا کیا جو موسی بن عمران جیسا سمندروں کو پھاڑتا ہے اور جس کی ماں مادر عیسیٰ علیہ السلام کی طرح پاکیزہ اور مقدس ہے لیکن وہ ناحق مارا جاتا ہے اور آسمان کے فرشتے اس پر روتے رہیں اور خدا ان کے دشمنوں اور اس پر ظلم کرنے والوں پر غضبناک ہو گا اور اسے دردناک عذاب ملے گا۔(14)
13 رجب:
13 رجب بروز جمعہ عام الفیل واقعہ کے 30 سال بعد فاطمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ میں ایک بچے کو جنم دیا، جس کی امد سے عرش والے خوشیاں منانے لگے اور فرش والے فرت حیرت میں ڈوبا ہوا ہے جس کی پیدائش سے بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے مکین کی شرافت اور بزرگی کے تناسب سے مکان بھی ایسا تلاش کیا جو توحید کا مرکز، پاک حرم میں پاک زات کو پیدا کیا، گرچہ لم یلید و لم یولد پر بات اسکتی تھی لیکن اس کے پروا کیے بغیر سرچشمہ امامت کو سرچشمہ توحید میں قرار دیا کیوں ایسا نہ ہو کیوں کہ انے والا عین اللہ، وجہ اللہ، ید اللہ، لسان اللہ اور صِبْغَۃَ اللَّہ ہو تو خدا کے گھر سوا کوئی گھر اسے کیا جھجتا ہے ؟ اس کی شایانِ شان یہ تھا اس کا نام بھی صاحب بیت کی طرف سے ہو لذا رحمت کو جوش ایا اس مولود کا نام "علی" رکھا گیا اور 13 رجب کو حضرت علی (ع) کی ولادت کے ساتھ خدا کا فضل اس طرح ظاہر ہوا جو حقیقتاً ہمارے بیان کرنے بلکہ سمجھنے کی طاقت سے باہر ہے، کیونکہ اس کی ولایت ایمان کا عظیم ستون ہے، بلکہ ایمان کی روح ہے یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جہان کعبہ توحید کی نشانی ہے وہاں پر مولود کعبہ بھی عظمت توحید کی نشانی ہے اس لیے کہ توحید کے پرچم کو سربلند رکھنے میں علی اور اولاد علی نے کیا کیا قربانیاں پیش نہیں کیں۔
13 رجب کا دن "یوم البیض" کا پہلا دن ہے، جو 15ویں دن تک رہتا ہے، اور چونکہ ان ایام کے شروع سے آخر تک چاند صحیح طور پر چمکتا ہے، اس لیے یہ مشہور ہے۔ (15) ایام البیض میں روزہ رکھنے کے بہت سے ثواب ہیں، اور اگر کوئی ام داؤد کا عمل کرنا چاہے تو اس دن کا روزہ رکھے، ان تین دنوں میں اعتکاف کرنے کی بڑی فضیلت ہیں پیغمبرِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو بھی ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کے لیے معتکف ہو جائیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔(16)
15 رجب:
15 رجب کا دن نبوت کے پانچویں سال مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کا آغاز ہے اور اسی دن مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے بیت اللہ حرام کی طرف تبدیل کر دیا گیا تھا۔ خانہ کعبہ 15 رجب 62 ہجری کو حضرت زینب الکبری (س) رحلت فرمائی وہ خاتون جنہوں نے ثابت قدمی اور مزاحمت کے ساتھ حق کا دفاع کیا اور ظالموں کو رسوا کیا اور بنی امیہ کے ظلم کو بے نقاب کیا اور اپنی آتشیں کلمات کے زریعے سے یزید کے کارندوں کے دلوں میں خوف و حراس پھیلایا اسیری کی سختیوں کو برداشت کیا اور اس لوٹے ہوئے قافلے کو ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف رہنمائی کی اور تحریک عاشورہ کی حفاظت کی، ایک ایسی خاتون جس نے کسی ذلت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اور انسانیت اور تقویٰ کا واضح نمونہ بن گئے اور تیسرے امام علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی حضرت آدم علیہ السلام نے خدا سے پوچھا اے خدا تیرے لیے سب سے زیادہ پیارے دن اور پسندیدہ زمان کون سے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی کی: میرے نزدیک پندرہویں رجب کا دن ہے، اے آدم! اس دن کوشش کرو کہ قربانی، دعوت، روزہ، دعا، استغفار، اور لا اللّٰہ الا اللہ پڑھنے کے زریعے سے میری رضامندی حاصل کرو ۔ میں نے یہ مقدر کیا ہے کہ آپ کی اولاد میں سے ایک کو نبی بناؤں گا اور نیمہ رجب کواس کے لیے اور اس کی امت کے لیے وقف کروں گا کہ اس دن وہ مجھ سے کچھ نہیں مانگیں گے سوائے اس کے کہ میں ان کو بخش دوں۔
25 رجب:
25 رجب 183 ہجری کو۔ امامت کے ساتویں شمع کو ہارون خلیفہ عباسی کے ہاتھوں سے بجھا کیا گیا اور اس طرح ہدایت کی یہ چراغ کئی سالوں کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد سیاسی دباؤ اور اسلامی معاشرے کی انسان سازی کی راہ میں گراں قدر کوششوں کے بعد اس عبد صالحی کو ایک بد کردار انسان نماء درندے نے شہید کیا۔
27 رجب:
ستائیسویں رجب کا دن معزز ترین راتوں اور دنوں میں سے ہے اور سال کی سب سے قیمتی رات اور دن میں سے ہیں کتاب "اقبال الاعمال" میں امام جواد علیہ السلام سے نقل ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا: "رجب میں ایک ایسی رات جو لوگوں کے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔اور وہ رات اس مہینے کی ستائیسویں کی رات ہے، اس کے اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اس دن کے خاص اعمال بجا لانے سے ساٹھ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (17)وہ ستارہ جس کے طلوع ہونے کے ساتھ آتش آتشکدوں ویران ہوگئیں اور قیصر و کسری کی شان و شوکت مٹ گئے، اپ رسالت کا پیغام سرگوشی کر رہا ہے، آسمان سے زمین مکہ تک روشنی کا راستہ نمایاں ہونے لگا اور افق سے افق تک فرشتے کھڑے ہیں۔ ایک قطار میں اور غار حرا میں روشنی راز کھلنے لگی، وقت کی نبض تیزی سے دھڑکتی ہے، رات بھاگتی ہے آخرکار وہ دن آن پہنچا اور خدائی وعدے سچے ہوئے، پیغمبر اسلام کی بعثت، زوال پذیر اور دم گھٹنے والے صحرا میں بجلی کی طرح عالم انسانیت پرچمکا، اور ہدایت اور روشنی کا سلسلہ "اقراء" کے دلنشین صدا کے ساتھ شروع ہوا۔ نور الٰہی غار حرا میں چمکا اور جام جان رسول صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت سے معمور ہو گئی اور آپ کی روح کو علم کے نور سے منور کر دیا۔
حوالہ جات:
1) سوره توبه / 36
2) فضائل الاشهر الثلاثه، ابن بابویه قمی، تحقیق غلامرضا عرفانیان، ص 24 .
3) بحارالانوار، علامه مجلسی، ج 97، ص 37 .
4) مفاتیح الجنان، ص 228 .
5) فصلنامه میقات حج، سال چهاردهم، شماره 16، تابستان 1375، ص 22 و 23.
6) بحارالانوار، ج 97، ص 26 - 55; تحف العقول ابن سعید حرانی، ص 304 - 511.
7) المراقبات فی اعمال السنة، میرزا جواد ملکی تبریزی، (متن ترجمه) ص 70 .
9) مفاتیح الجنان.
10) المراقبات، ص 78 - 79.
11) مفاتیح الجنان، ص 24.
22) المراقبات، ص 78، مفاتیح ص 243 - 244.
23) مصباح المتهجد شیخ طوسی، ص 557 .
24) نک: تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 503; حیات الامام الهادی، باقر شریف قرشی، ص 348 .
25) اصول کافی، ج 2، بحارالانوار، ج 50
26) تفسیر روح البیان، ج 3، ص 422 .
27) کنزالعمال، حسام الدین هندی، حدیث 24007 .
29) المراقبات، ص 117 - 121
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔