حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام مہدی یوسفیان نے گفتگو کے دوران اس تصور کی وضاحت کی ہے کہ ظہورِ امام زمانہ علیہ السلام کے بعد بعض مساجد کی تخریب کی بات کن معنوں میں بیان ہوئی ہے اور اس کا دائرہ کہاں تک محدود ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ روایات میں مساجد کی تخریب کا ذکر تمام مساجد کے لیے نہیں بلکہ مخصوص مساجد کے بارے میں ہے، جن کا کردار الٰہی نہیں رہا اور جو تاریخ میں مسجدِ ضرار کی مانند فتنہ، نفاق یا ظلم کی علامت بن گئیں۔ اسلام میں مسجد ایک عظیم نعمت اور خدا کا گھر ہے، جو انسان کو دائمی طور پر خدا سے جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن اگر یہی مقدس عنوان غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو تو وہ الٰہی ہدایت کے بجائے گمراہی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
حجت الاسلام یوسفیان نے تاریخِ اسلام کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ مسجد قبا، جو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعمیر کی، عبادت اور تقویٰ کی علامت بنی، جبکہ اسی کے مقابل تعمیر ہونے والی مسجدِ ضرار کو نفاق کی بنیاد پر قائم کیے جانے کی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے منہدم کردیا گیا۔ اس واقعے سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ مسجد کی اصل قدر و قیمت اس کے صحیح کردار اور مقصد سے وابستہ ہے، نہ کہ محض اس کے نام یا ظاہری شکل سے۔
ظہورِ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق روایات کے مطابق کوفہ میں چار مخصوص مساجد کی تخریب کا ذکر ملتا ہے۔ یہ وہ مساجد ہیں جو واقعۂ کربلا کے بعد بعض ایسے افراد کے نام سے بنائی گئیں جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں پیش پیش تھے۔ اس بنا پر ان مساجد کی تخریب دراصل ظلم، نفاق اور باطل کی علامتوں کے خاتمے کی علامت ہے، نہ کہ مساجد کی دشمنی کا کوئی عمومی تصور۔ دینی منابع اس کے برعکس مساجد کی تعمیر، اصلاح اور احیائے کردار پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے علائمِ حتمی کے حوالے سے بھی وضاحت کی۔ مقرر نے کہا کہ علائمِ حتمی کا مطلب ان واقعات کا یقینی وقوع ہے، نہ کہ ان کا لازمی طور پر ایک ہی متعین وقت میں ظہور۔ نداۓ آسمانی اور نفسِ زکیہ کی شہادت جیسے واقعات اپنی اصل کے اعتبار سے یقینی ہیں، لیکن ان کے زمانی تعینات روایات کے تجزیے سے اخذ کیے گئے ہیں، جن میں تبدیلی اور بداء کا امکان موجود ہے۔
انہوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ ظہور ایک تدریجی عمل ہے، کوئی اچانک واقعہ نہیں۔ علائم، اس طویل عمل کے ابتدائی مراحل ہیں اور ان کا مقصد معاشرے کو فکری و عملی طور پر اس عظیم الٰہی واقعے کے لیے آمادہ کرنا ہے۔









آپ کا تبصرہ