بدھ 31 دسمبر 2025 - 11:45
توحیدِ حقیقی انسان کو ذہنی تناؤ سے بچاتی ہے: آیت اللہ جوادی آملی

حوزہ/ آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے امام محمد تقی علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں توحید کے اجتماعی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کی رزاقیت پر کامل اعتماد انسان کو اضطراب، غلط معاشی رویّوں اور اخلاقی انحراف سے نجات دلاتا ہے، جب کہ میڈیا اور سماجی فضا میں ہوشیاری نہ برتی جائے تو انسان نادانستہ طور پر گمراہی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جوادی آملی نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں کہا کہ حقیقی توحید انسان کو ذہنی دباؤ، بے چینی، بدعنوانی، غیر معمولی تنخواہوں، رشوت، سود اور ناجائز کمائی جیسے گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

انہوں نے امام جوادؑ کے اس نورانی فرمان کی طرف توجہ دلائی: «مَنْ أَصْغی إِلی ناطِق فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإِنْ کانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ، وَ إِنْ کانَ النّاطِقُ یَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إِبْلیسَ فَقَدْ عَبَدَ إِبْلیسَ».

“جو شخص کسی کی بات غور سے سنتا ہے، وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے؛ اگر بولنے والا اللہ کی طرف سے بول رہا ہو تو اس نے اللہ کی عبادت کی، اور اگر وہ شیطان کی زبان سے بول رہا ہو تو اس نے شیطان کی عبادت کی۔”

آیت اللہ جوادی آملی نے اس حدیث کو آج کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ماحول کے لیے نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس فضا کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جسے عام طور پر “ورچوئل اسپیس” کہا جاتا ہے، وہ درحقیقت ایک حقیقی فضا ہے، کیونکہ جہاں خیالات منتقل ہوتے ہیں، وہ فضا حقیقی ہوتی ہے۔ اس لیے انسان جو کچھ دیکھتا، سنتا یا پڑھتا ہے، وہ اس کی فکری اور روحانی تشکیل پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی شخص کتاب پڑھتا ہے، منظر دیکھتا ہے، فلم دیکھتا ہے یا کسی کی بات سنتا ہے تو دراصل وہ اسی فکر کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ مواد اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات پر مبنی ہو تو یہ عبادتِ الٰہی ہے، اور اگر لغو یا گمراہ کن ہو تو انسان نادانستہ طور پر اسی کا غلام بن جاتا ہے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے حضرت امیرالمؤمنین علیؑ اور حضرت ابوذرؓ کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی توحید انسان کو اس قدر مضبوط بنا دیتی ہے کہ وہ انتہائی سخت حالات میں بھی اللہ پر کامل بھروسہ رکھتا ہے۔ اللہ چاہے تو ایسی زمین اور ایسے حالات میں بھی اپنے بندے کا رزق فراہم کر سکتا ہے جہاں ظاہری اسباب بالکل ختم ہو جائیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ تمام حلال رزق اللہ کے اختیار میں ہے تو وہ حرام راستوں، رشوت، سود اور بدعنوانی کی طرف ہرگز نہیں جاتا۔ یہی توحید فرد اور معاشرے دونوں کو اخلاقی زوال سے بچاتی ہے۔

آخر میں آیت اللہ جوادی آملی نے علما اور دینی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جتنا علم اور خلوص زیادہ ہوگا، اتنا ہی بات کا اثر گہرا ہوگا۔ معاشرہ قول و فعل کے فرق کو سمجھتا ہے اور دین سے بدظن نہیں ہوتا بلکہ غلط عمل کرنے والوں کو الگ سمجھتا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ مساجد کو قرآن و اہل‌بیتؑ کی عالمانہ تعلیمات سے آباد رکھا جائے، تاکہ دین کا اثر فرد کے دل میں بھی گہرا ہو اور معاشرے میں بھی مضبوطی کے ساتھ ظاہر ہو۔

ماخذ: درسِ اخلاق، 18 مرداد 1397

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha