۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
انتشار

حوزہ/ امت اسلامی میں تفرقہ ایک ایسا ناسور ہے جو اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کیے جا رہا ہے جس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی| امتِ اسلامی کے درمیان کسی بھی طرح کے اختلاف و انتشار سے رحمة للعالمین(ص) پریشان ہوجایا کرتے تھے؛سيوطی اور دیگر علماء کا بیان ہے کہ: ایک شخص جس کا نام «شاس بن قيس» تھا جو کہ زمانۂ جاهليّت کا پرورش یافتہ تھا جس کے دل میں مسلمانوں سے حسد اور کنیہ کی آگ بھڑک رہی تھی،اس نے ایک یہودی جوان کو ورغلایا تاکہ وہ  امت اسلامی کے دو سب سے بڑے قبائل اوس و خزرج کے درمیان پھوٹ ڈالنے کا کام کرے،اس یہودی جوان نے قبیلے کے دو افراد کے سامنے زمانۂ جاہلیت کی پرانی باتیں دہرانی شروع کردیں اور اس طرح اس نے ان کے درمیان فتنہ کی آگ بھڑکا دی؛ کچھ اس طرح کہ شمشیریں نیام سے باہر نکل آئیں اور وہ ایک دوسرے کے مقابل لڑائی  کےلیے صف بستہ ہو گئے۔

رسول گرامی صلي الله عليه و آله کو جب اس واقعہ کی خبر لگی تو مہاجرین و انصار کے ساتھ لڑائی والی جگہ پر پہنچے اور فرمایا:يا معشر المسلمين، اللّه اللّه، أبدعوي الجاهليّةِ وأنا بين أَظْهُرِكم؟ بعد إذ هداكم اللّه إلي الإسلام وأكرمكم به، وقَطَع به عنكم أمرَ الجاهليّةِ، وَاسْتَنْقَذَكم به من الكفر، وألَّف به بينكم، تَرْجِعُون إلي ما كنتم عليه كفّارا؛ اےمسلمانوں، کیا تم خدا کو بھلا بیٹھے ہو، اور تم پر زمانۂ جاہلیت کا خمار چھاگیا  ہے؛جب کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں،اب جبکہ اللہ نے تمہیں اسلام کے نور سے ہدایت دے دی اور اسلام کے ذریعہ تمہیں قابلِ ذکر بنا دیا اور زمانۂ جاہلیت کے فتنوں کو جڑ سے ختم کردیا اور کفر سے نجات بخش دی اور تمہارے درمیان الفت و محبت اور بھائی چارہ قائم کردیا ان سب کے باوجود کیا تم سب پھر سے یہ چاہتے ہو کہ زمانۂ جاہلیت کی طرف واپس پلٹ جاؤ؟ (26)

 رحمة للعالمین(ص) کے اس بیان کا اثر اس قدر زیاده تھا کہ وہ اس جانب متوجہ ہو گئے کہ شیطان کی چال اور اسکا جگایا فتنہ تھا؛ جس کے بعد وہ اپنے عمل پر شرمسار نظر آئے،انہوں نے اپنے ہتھیار زمین پر ڈال دیے جبکہ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے،ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈال کر ایک دوسرے کو چومنے لگے اور رسول گرامی صلي الله عليه و آله کی معیت میں اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔[در المنثور، ج 2، ص 57]
........................
منابع
«فعرف القوم أنها نزغة من الشيطان وكيد من عدوهم لهم فألقوا السلاح وبكوا وعانق الرجال بعضهم بعضا ثمّ انصرفوا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم سامعين مطيعين قد أطفأ الله عنهم كيد عدوّ اللّه شاس». در المنثور، ج 2، ص 57؛ جامع البيان، ج 4، ص 32؛ فتح القدير، ج 1، ص 368؛ تفسير آلوسي، ج 4، ص 14 و أسد الغابه، ج 1، ص 149۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .