کچھ عرصہ پہلے امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے جرمنی کی حکومت نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے جرمنی میں اس کی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دیا تھا۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس نے حزب اللہ کی اجرائی کونسل کے نائب صدر حجۃ السلام والمسلمین شیخ علی دعموش سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے جس کا متن اس طرح ہے:
حوزہ نیوز ایجنسی: جرمن حکومت کا یہ اقدام مقاومت(مزاحمت) پر کس قدر اثر انداز ہوگا؟
شیخ دعموش: حزب اللہ کے خلاف جرمن حکومت کا اقدام سیاسی ہے اور اس نے یہ اقدام امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔ یہ اقدام ہمارے لیے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ ہمیں اس کا انتظار تھا کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اقدام کرنے کے لیے جرمنی پر امریکہ اور اسرائیل کا کتنا زیادہ دباؤ ہے۔البتہ ایسے اقدام کی وجہ سے کچھ بھی نہیں بدلا ہے اور ہمارے عزم و ارادہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ہم فرنٹ لائن پر غاصب صہیونیوں کے خلاف جہاد کرتے رہیں گے اور اسرائیل کے مقابلہ میں اپنے ملک کا دفاع کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا: ہم خطے میں امریکی اہداف کا مقابلہ کریں گے۔ مسئلہ فلسطین ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے اور مسئلہ باقی رہے گا۔ امریکہ، یورپ یا ان کے علاوہ کسی کے اقدامات ہمیںاپنے شرافت مندانہ مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہونے سے نہیں روک سکتے۔ وہ ہمارے خلاف سب سے بڑا اقدام یہی کر سکتے ہیں کہ ہمیں قتل کر سکتے ہیں یا ہمارا محاصرہ کر سکتے ہیں، ہم پر ہر قسم کی پابندی عائد کرسکتے ہیں اور ہمارے گھروں کو تباہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: یہ سب کام گذشتہ عشرے اور بالخصوص 2006 کے حملے میں ہمارے خلاف انجام دئے گئے ہیں لیکن وہ ہمیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکے بلکہ ان کے ان اقدامات کی وجہ سے ہمارا ایمان زیادہ مضبوط ہوا ہے اور مزاحمت کے راستے میں ہمارے عزم و ارادہ میں پہلے سے بھی زیادہ پختگی آئی ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: مزاحمتی اتحاد نے کیسے ان اقدامات اور دشمنیوں کے مقابلے میں ثابت قدمی دکھائی ہے؟
شیخ دعموش: ہمارے لوگوں نے لبنان میں بہت ساری جنگوں، جارحیتوں، فتنہ انگیزیوں اور سیاسی، میڈیا، اقتصادی اور مالی دباؤ کا سامنا کیا ہے۔ ہم نے اپنے عزم و ارادہ سے ثابت کیا ہے کہ ہم دشمن کے اہداف اور اس کی سازشوں کو صبرواستقامت سے ناکام بنا سکتے ہیں۔ آج بھی ہم پختہ ایمان و ارادہ اور اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمن کی جدید حربوں اور اس کے ممکنہ اقدامات کا صبرواستقامت سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی: جرمنی کی طرف سے یہ پہلا اقدام ہے یا ماضی میں بھی اس نے اس قسم کے اقدامات کئے ہیں؟
شیخ دعموش: جرمنی کی حکومت کا یہ پہلا اقدام نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے دوسرے بھی حکومتیں اس قسم کے اقدامات انجام دیتی رہی ہیں مثلا حکومت برطانیہ پہلے سیاسی اور فوجی طاقت کے درمیان فرق کی قائل تھی لیکن اب وہ اس فرق کی قائل نہیں ہے اب وہ حزب اللہ کی سیاسی اور فوجی طاقت دونوں کو دہشتگردوں کی لسٹ میں قرار دیتی ہے۔ بعید نہیں ہے کہ آئندہ یورپ کے دیگر حکومتیں بھی اس قسم کے اقدامات انجام دیں۔ جرمنی کے اس اقدام اور وہ تمام اقدامات جو ماضی میں انجام دیئے گئے ہیں اور آئندہ انجام دیے جائیں گے، کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ اقدامات امریکی اداروں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نتیجہ ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی پلاننگ ہے کہ وہ تمام مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد گروہوں کی لسٹ میں قرار دے۔ یہ مسئلہ صرف حزب اللہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ فلسطین، عراق، یمن اور خطے کے دیگر علاقوں میں بھی مزاحمتی تحریکوں کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے اور ہمیشہ ان تحریکوں پر پابندی عائد کی گئی ہیں اور ان کے متعلق حقائق کو بھی منفی رنگ دیا گیا ہے اور اس خطے میں ان تحریکوں کے خلاف یہ اقدامات امریکیوں اور صہیونیوں کی طرف سے جنگ کا حصہ ہیں۔ جرمن حکومت کا یہ اقدام اور دوسرے ممالک کے اس قسم کے اقدامات اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی: ان تمام پابندیوں، دباؤ اور رکاوٹوں کے باوجود آپ آئندہ کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟ ان کے مقابلے میں مزاحمتی اتحاد کا ردعمل کیا ہے؟
شیخ دعموش: مقاومتی (مزاحمتی) اتحاد جرمنی کے اس اقدام اور اس طرح کے دیگر اقدامات کو دشمنی اور جارحیت کی ایک شکل قرار دیتا ہے اور اسے مزاحمت کے خلاف جنگ کا ایک حصہ بھی قرار دیتا ہے اور ان اقدامات کو سختی سے رد کرتا ہے کیونکہ یہ ایک اقدامات ظالمانہ ہیں۔ یہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں چونکہ ان قوانین کے مطابق ہر شخص یا گروہ کو حق حاصل ہے کہ وہ جارحین کے مقابلے میں اپنا دفاع کریں۔ ہماری نظر میں خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کے متعلق پالیسیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے بلکہ خطے کا مستقبل وہاں کے لوگوں اور مزاحمتی گروہوں سے وابستہ ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی خطے میں غاصبانہ تسلط کے متعلق پالیسیوں سے برسرپیکار ہیں۔ آج امریکہ ایران اور مزاحمتی گروہوں کے متعلق اپنے منصوبوں میں ناکامی کے بعد خطے سے نکل جانے پر مجبور ہے اور چند روز پہلے امریکی افواج نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیٹریاٹ میزائل کو تباہ کرنے والا سسٹم سعودی عرب سے خارج کر رہے ہیں اور خلیج فارس میں اپنی افواج اور بحری بیڑوں کی تعداد کو بھی کم کر رہے ہیں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ امریکہ کو خطے سے مکمل طور پر نکل جانا چاہیے کیونکہ امریکہ خطے میں بحرانوں، جنگوں اور عدم استحکام کا اصلی سبب ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکریٹری نے ۱۵ شعبان کو اپنے خطاب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صہیونی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کی حکومت کی عمر 80 سال تک پہنچے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
شیخ دعموش: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل خطے میں مزاحمتی گروہوں کی طاقت اور پاور سے پریشان ہے۔ لبنان میں مزاحمتی گروہوں کا نشانے پر لگنے والے میزائلوں سے مسلح ہونا اور شام میں ایران کا مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے نزدیک پہنچ جانا وغیرہ اسرائیل کے لئے خوف و ہراس کا باعث ہے کیونکہ اسرائیل ان کو اپنے لئے بہت بڑا چیلنج سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں اسرائیل کو اس سے بھی زیادہ خوف و ہراس میں مبتلا ہونا چاہیے کیونکہ مقاومتی(مزاحمتی) اتحاد کے پاس مضبوط عزم وارادہ، فورس اور ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ جس کے بل بوتے پر وہ آئندہ ہر جنگ میں خدا پر توکل کرتے ہوئے اسرائیل کو شکست سے دوچار کر دے گا۔
انہوں نے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ غاصب اسرائیل اپنے غاصبانہ تسلط کو باقی رکھنے کے لئے جتنی بھی کوشش کر لے اس کا اس خطے میں کوئی مستقبل نہیں ہے اور اسے جلدی یا دیر سے نابود ہونا ہے اور اس کا زوال حتمی ہے کیونکہ اس کا زوال خدا کا وعدہ ہے اور خدا کے وعدے میں کبھی بھی خلاف واقع نہیں ہوتا۔