حوزہ نیوز ایجنسیl
کیا کہوں قافلہ فکر ونظر قید میں تھا
منزلیں پا بہ رسن جیسے سفر قید میں تھا
آنکھیں پتھرائیں تھیں اور دیدۂ تر قید میں تھا
ایک دو فرد نہیں سارا نگر قید میں تھا
ایک محشر تھا تلاطم تھا مناجاتیں تھیں
دن مقدر میں نہ تھا ،گویا فقط راتیں تھیں
رات ایسی رمق ِصبح نہیں تھی جسمیں
خونِ دل خونِ جگر دیدۂ نم تھا اسمیں
جسکی پروردہ تھیں جُہّال کی ستّر قسمیں
انکو آئینہ دکھا ئے!! تھا بھلا دَم کس میں
آدمیت خجلِ شیوۂ شیطانی تھی
پانی مہنگا تھا مگر خون کی ارزانی تھی
جام ِ سیمینِ تخیل پہ لگے تھے پہرے
ایک انسان کے دکھتے تھے ہزاروں چہرے
سامراج اور سیاست کے سجے تھے مہرے
حق کی آواز کہاں سنتے، سبھی تھے بہرے
مرحب وقت کے چنگل میں علی ؑوالے تھے
تھی وہ مسموم فضا ،جان کے بھی لالے تھے
ایسے ماحول میں اک شیر نَیَستاں اٹھا
وارث دبدبئہ ملک ِسلیماں اٹھا
حیدری عزم لئے وقت کا انساں اٹھا
ہند کا بیج شجر بن کے زِ ایراں ٹھا
اصفہان و قم ومشہد سے صدا آنے لگی
سارے عالم سے خمینی ؒ کی ندا آنے لگی
وقت نے ہوش کے ماتھے کی لکیریں چومیں
دہر نے پھر سے نجف والی جبینیں چومیں
روح نے عقل کے شہروں کی فصیلیں چومیں
ابن حیدرؑ کے کف پا کی زمینیں چومیں
عدل نے ظلم کا سارا دم و خم توڑ دیا
علم نے جہل کے لشکرکا بھرم توڑ دیا
حاکمیت پئے ایمانِ خدا ناب ہوئی
اور ایراں کی زمیں نور کا اک باب ہوئی
سطوت شاہی اسیرِ دمِ گرداب ہوئی
فارسی! باعث حیرانئ اعراب ہوئی!
حرفِ حق! شمعِ شریعت سے ضیاء بار ہوا
ملک سلمان علؑی والوں سے گلزار ہوا
ہاں اسی مرد دلاور کے ہیں ’’رہبر‘‘ نائب
جیسے بعدِ شہ ذیشان تھے، حیدرؑ نائب
یوں تو دنیا نے تراشے ہیں مُعمّر نائب
پر کہاں کوئی ہے حیدرؑ کے برابر نائب
سلسلہ ،یاں بھی، اسی سلسلۂ نور کا ہے
ہاشمی خون میں جلوہ نجف وطور کا ہے
گوہرِ قلزم الطافِ نبیؐ ہیں رہبر
سالکِ مسلک ِ سلمانِ علیؑ ہیں رہبر
بالیقیں ِ فاطمہؑ زھرا کی خوشی ہیں رہبر
خوابِ شبیرؑ کی تعبیرِ جَلی ہیں رہبر
حیف ہے!ملکِ پیمبرؐ بھی سقیفائی ہے
لطفِ زھرا ہے یہ، ایران جو مولائی ہے
اے جری خامنہ ای ہم تری جرأت کے نثار
ہے تر ے دم سے ہی محزون ،غریبوں میں قرار
حامل ِ علمِ نبیؐ ، مَرجعِ عالی کردار
آبرو قوم کی ہے جتنا بڑھے تیرا وقار
ذمہ داری پئے غیبت یہ نبھائی تونے
دل میں امید ظہور اور جگائی تونے
نتیجۂ فکر: سیدلیاقت علی