حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدرسۂ بنت الهدی اور حوزہ نیوز ایجنسی شعبۂ اردو کی جانب سے حوزہ نیوز کے مرکزی دفتر میں«حضرت فاطمہ معصومہ(س) کی فردی اور اجتماعی زندگی خواتین کے لیے نمونۂ عمل» کے عنوان سے علمی نشست کا انعقاد ہوا۔
اس علمی نشست میں محترمہ نازیه بانو نقوی کارشناس مطالعات زنان اور محترمہ شاہدہ زھرا ناطقی کارشناس مطالعات زنان نے بطور مہمان خصوصی اور نشست کے مقرّرین کی صورت میں شرکت فرمائی جبکہ نشست کی نظامت محترمہ صغری بتول حسنی نے بحسن و خوبی انجام دی، واضح رہے کہ یہ تینوں ہی خواتین مدرسۂ بنت الهدی قم کے محققین و متعلمین اور گروہ مطالعات زنان کی فعال اراکین ہیں۔
نشست کی ناظر علمی محترمہ مرضیہ سادات سجادی دبیر پژوهش گروہ مطالعات زنان مدرسۂ بنت الهدی اس نشست میں موجود رہیں اور نظارتِ علمی کے فرائض انجام دیئے۔
نظام جلسہ محترمہ صغری بتول حسنی نے نشست کا آغاز کرتے ہوئے کہا، حرم معصومہ کے کنارےدل، مدینہ کی خوشبو محسوس کرتا ہے، گویا وہ مکہ میں صفا اور مروہ کے درمیان اپنے محبوب کا پتہ پوچھ رہا ہو جہاں جنت کی خوشبو ہر زائر کے دل و جان کو تازہ دم کرتی ہے۔ آپ کے مزار پر ہمیشہ بہار کا موسم رہتا ہے۔قرآن و دعا کی بہار ، درود و سلام کی بہار ، شب قدر کی یادوں کی بہار ، دعا اور مناجات کی بہار، جہاں تھکے ہارے زائروں کو قلبی سکون ملتا ہے، آپ کا حرم اور اسکا گنبد روح و قلب کو سکون بخشتے ہیں کیونکہ یہ مزار، اہل بیت (ع) کا مزار، جگر گوشۂ رسالت کی تدفین کا مقام، موسٰی ابن جعفر(ع) کی آنکھوں کی روشنی، عفت و پاکیزگی کا مکمل آئینہ ہے۔آپ مکتب علوی کی پروردہ اور خاندان نبوت کی رازدار تھیں کہ جنکے آنے کی خبر خود صادق آل محمد(علیہم السلام) نے دی تھی۔
واضح رہے کہ یہ علمی نشست حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے بغیر مستمعین کے منعقد ہوئی۔
ناظم جلسہ نے شہادت حضرت معصومہ(س) کی تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہوئے محترمہ شاہده زھرا ناطقی سے کہا کہ آپ شہر مقدس قم اور اسکی ثقافت اور مذہبی ماحول سے آگاہ کرتے ہوئے قبیلۂ اشعری کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔
محترمہ شاہده زھرا ناطقی نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا،قم اسلامی شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔ جس نے خاندان اشعری کے اس سرزمین پر ۸۳ ھ میں وارد ہونے اور ان کے سکونت پذیر ہونے کے بعد وجود پیدا کیا ہے اور اس کا نام قم رکھا گیا۔خاندان اشعری حاکم کوفہ حجاج کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کی برجستہ شخصیت کے قتل کے بعد امن و سلامتی کا فقدان محسوس کرنے لگے تو جلا وطنی اختیار کر کے ایران کی طرف روانہ ہو گئے چلتے چلتے نہاوند پہنچے ، وہاں ایک وبا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے ۔ لہٰذا وہاں سے دوبارہ کوچ اختیار کرلیا اور اسی طرح آبلہ پائی کرتے ہوئے سرزمین قم پر وارد ہو گئے۔ امامی شیعوں کا فقہی مکتب عبد اللہ بن سعد اور ان کے فرزندوں کے ہاتھوں اس شہر میں قائم ہوا ۔ گزشت زمان کے ساتھ ساتھ قم پیرو فقہ اہلبیت کے شہر سے معروف ہوگیا اس طرح اس شہر نے ایک درخشاں ستارہ کی طرح عالم اسلام کے مطلع پر تابناکی حاصل کر لی ۔ آہستہ آہستہ یہ شہر پیروان امامت و ولایت کا مامن و پناہ گاہ قرار پا گیا۔اہل قم اپنے زمانے کے ستمگر حاکموں سے ہمیشہ دست و گریباں رہے اور موقع پاکر شورش و انقلاب بھی برپا کرتے تھے۔مذہبی اور روحانی اعتبار سے قم کے امتیاز اور اس کی شرافت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کل سے لے کر آج تک تیرہ سو سال کی مدت میں شیعیت کا مرکز علم و آگہی ، فضیلت و کرامت کا گہوارہ ، حکمت و معرفت کا جوش مارتا ہوا سر چشمہ ، یہی مقدس شہر جسے قم کہا جاتا ہے۔
آئیں تشیع اور نشر معارف دینی و فرہنگی اسلام کے احیاء میں علمائے قم کی زحمتیں اس حد تک پھلدار ثابت ہوئیں کہ تاج کرامت ان کے سروں سجا دیا گیا۔ قم ایک ایسا شہر ہے جس کی پہلی معنوی بنیاد اصحاب و محبان اہلبیت علیہم السلام نے ڈالی ۔ خاندان اشعری نے ایمان و تولائے آل محمد علیہم السلام کے مسالے سے اس عمارت کو تعمیر کیا اور اس شہر کی بنیاد ۸۳ ہجری میں ڈالی اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں اس کی طراحی ہوئی یہ شہر مرکز اسلام کی سربراہی میں ایک مستقل ملک کی طرح خاص مقررات اور مزیت کا حامل تھا حتی اس دور میں بھی کہ جب شیعوں نے گھٹن کا دور دیکھا ہے اہل قم نے بدون تقیہ با کمال آزادی اس دیار مقدس میں آثار واخبار آل محمد علیہم السلام اور انکی تدوین میں کوئی کم و کاست نہ کی نیز اذان کے فلک شگاف نعرہ میں فراز ارتفاعات پر ولایت علی علیہ السلام کی شہادت دیتے تھے ۔ مکتب امامیہ خاندان اشعری کے توسط سے پہلی مرتبہ قم میں افتتاح پذیر ہوا جس میں فقہ شیعہ علی الاعلان پڑھائی جاتی تھی ۔ اس طرح ہدایت کے مشعل اس شہر میں روشن ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل قم ہمیشہ ائمہ معصومین کی عنایت خاصہ کے مورد نظر رہے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے قم اور اہل قم کی فضیلت و عظمت کے بارے میں مختلف حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں۔
محترمہ نازیه بانو نقوی نے،حضرت معصومہ(س) کی زندگی اور آپ کی قم تشریف آوری کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا،ذی القعدہ کی پہلی تاریخ شیعوں کے ساتویں امام، رسولخدا (ص) کے معصوم جانشین اور ولی خدا حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم (ع) کی بیٹی حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی ولادت کی تاریخ ہے۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) 1/ ذی القعدہ سن 173 ق کو خاندان عصمت و طہارت اور اہلبیت نبوت (ع) میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ نسل نبوت اور شجر امامت کی ایک شاخ ہیں۔ آپ حضرت زہراء (س) کی پوتی ہیں۔ آپ طاہره، مطہره، عابده اور عالمہ تھیں۔
روایت ہے کہ آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا (ع) آپ کو معصومہ کہتے تھے اور آپ کے جد بزرگوار حضرت امام صادق (ع) نے آپ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کو "کریمہ اہلبیت (ع)" کا لقب دیا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی پرورش آپ کے بھائی امام رضا (ع) کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ کیونکہ جس سال آپ (ع) کی ولادت ہوئی تھی اس وقت آپ کے والد گرامی امام موسی کاظم (ع) عباسی خلیفہ ہارون ملعون کے حکم سے قید کردیئے گئے تھے۔
حضرت معصومہ (س) ولایت اور امامت کی حمایت اور نصرت کے لئے مدینہ سے ہجرت کرکے مرو کے لئے روانہ ہوئیں تھیں۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی سیرت حضرت ابوالفضل عباس (ع) سے زیادہ مشابہ ہے؛ کیونکہ قمر بنی ہاشم اپنے زمانہ کے امام کے بارے میں گہرا ادراک اور عمیق بصیرت رکھتے تھے اور اپنے امام زمانہ کی شناخت اور معرفت رکھتے تھے اسی لئے اس راہ امامت میں خود کو قربان کردیا اور حضرت معصومہ (س) نے بھی انہی خصوصیات کے ساتھ اپنے زمانہ کے امام علی بن موسی الرضا (ع) کی راہ میں مظلومانہ اور عالم غربت میں جام شہادت نوش فرمایا۔
حضرت بی بی معصومہ (س) کا امام رضا (ع) سے رابطہ اور تعلق صرف بھائی اور بہن کی محبت اور خونی رشتہ کا نہیں تھا بلکہ ایک پاکیزہ کردار اور طیب و طاہر انسان کا جہت خدا سے الہی نمائندہ اور امام کے عنوان سے تھا اور آپ کا اپنے بھائی امام رضا (ع) سے عشق اور لگاؤ فضائل اور کرامات سے لگاؤ تھا۔
حضرت معصومہ (ع) دو اماموں یعنی امام موسی بن جعفر اور علی بن موسی الرضا (ع) کی روحانی اور معنوی تربیت سے بہرہ مند تھیں اور اسی الہی تربیت کی وجہ سے نور اور معرفت کے عظیم سرچشمہ میں تبدیل ہوگئیں۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) رسولخدا (ص) کی جانب انتساب کے علاوہ معنوی اور روحانی فضائل اور کمالات کی بھی مالک تھیں اور آپ کی عظمت امام کی بیٹی اور امام کی بہن ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آپ گرانبہا اقدار اور فضائل کی مالک تھیں۔
حضرت امام موسی بن جعفر (ع) کی اولاد میں حضرت علی بن موسی الرضا (ع) اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) خاص خصوصیات کی حامل تھیں اور وہ یہ ہے کہ آپ دونوں پاکیزہ ہستیاں اپنے والد کی راہ امامت اور ولایت کو جاری و ساری رکھنے والے تھے۔
حضرت امام جواد (ع) نے فرمایا: جو میری پھوپھی حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی قم میں زیارت کرے اس پر جنت واجب ہے۔ امام رضا (ع) نے فرمایا: جو شخص ان کے حق کا عرفان رکھتے ہوئے آپ کی زیارت کرے تو جنت اس کی ہے۔ حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: خداوند عالم کا ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے، رسولخدا (ص) کا حرم ہے اور وہ مدینہ ہے، حضرت علی (ع) کا حرم ہے اور وہ کوفہ ہے اور ہمارا حرم شہر قم ہے جہاں ہمارے خاندان کی ایک خاتون سپرد لحد کی جائے گی جس کا نام "فاطمہ" ہے جو ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔
حضرت امام خمینی (رح) جب تک قم میں تھے کبھی صبح کے درس اور کبھی عصر کے درس کے بعد حرم حضرت معصومہ(س) میں جاتے تھے
ہر انسان کی عظمت، فضیلت، کرامت اور بلندی اور سرفرازی، تقوی و پرہیزگاری، انسانی کمالات سے آراستگی اور علم و آگہی اور الہی و ربانی کرامتوں کے مالک ہوں نے سے ہوتی ہے۔ خداوند عالم ہم سب کو اہلبیت (ع) کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عنایت کرے اور روحانی فضائل و کمالات سے آراستہ کرے۔
محترمہ نازیه بانو نقوی نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے علمی مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا،حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عالم تشیع کی نہایت گرانقدر اور والا مقام خاتون ہیں جن کا علمی مقام بہت اونچا ہے۔ روایت ہے کہ ایک روز شیعیان محمد و آل محمد (ص) کا ایک گروہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ملاقات کے لئے مدینہ منورہ مشرف ہوا۔ چونکہ امام علیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے تھے اور یہ لوگ آپ (ع) سے سوالات پوچھنے آئے تھے لہذا انہوں نے اپنے سوالات حضرت فاطمہ معصومہ کے سپرد کئے – جو ابھی نوعمر بچی ہی تھیں – یہ لوگ دوسرے روز ایک بار پھرامام علیہ السلام کی در گاہ پر حاضر ہوئے مگر امام (ع) ابھی نہیں لوٹے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے سوالات واپس مانگے۔ مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ سیدہ معصومہ نے ان کے جوابات بھی تحریر کر رکھے تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنے سوالات کے جوابات کا مشاہدہ کیا، بہت خوش ہوئے اور نہایت تشکر اور امتنان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اتفاق سے راستے میں ہی ان کا سامنا امام موسی کاظم علیہ السلام سے ۔ہوا اور انہوں نے اپنا ماجرا امام علیہ السلام کو کہہ سنایا۔ امام (ع) نے سوالات اور جوابات کا مطالعہ کیا اور فرمایا: باپ اس پر فدا ہو - باپ اس پر فدا ہو - باپ اس پر فدا ہو۔
محترمہ شاہده زھرا ناطقی نے کہا، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ مسلمان لڑکیوں کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔انہوں نے مزید کہا ہےکہ اس وقت لڑکیوں کی تربیت جس قدر سیرہ معصومین علیہم السلام کے مطابق ہوگی مستقبل میں اتنا ہی معاشرہ اورخاندان سالم ہوں گے۔ محترمہ شاہده زھرا ناطقی نے اخلاص،پاکدامنی،ایثار و قربانی کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی خصوصیات شمارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کل کی لڑکیوں کو ایک آئیڈیل زندگی گزارنے کے لیے اس بی بی کی صفات پرتوجہ دینی چاہیے۔انہوں نےکہا ہے کہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا معاشرے کی لڑکیوں کے لیے ایک بہترین آئیڈیل شمارہوتی ہیں۔ حضرت معصومہ علیہا السلام کی پوری زندگی حیاء،پاکدامنی اورحجاب سے مزین تھے اورآپ ولایت سے بے حد محبت رکھتی تھیں۔
ساتھ ہی محترمہ شاہده زھرا ناطقی نے حضرت معصومہ(س) کی زندگی کو موجودہ دور کے لیے بھی نمونۂ عمل اور آئیڈیل قرار دیا اور کہا کہ پہلے کے دور میں کسبِ علم میں کتنی زیادہ دشواریاں تھیں لیکن آج کے دور میں بہت ساری سہولیات فراہم لہٰذا ہمارے معاشرے کو اس چیز سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور اپنے آپکو علم جیسی نعمت سے مزین کرنا چاہیئے۔
نشست کے آخری حصے میں محترمہ نازیه بانو نقوی نے پردے اور تبلیغ دین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پردہ رکاوٹ نہیں بلکہ وقار ہے اور تبلیغ دین میں مانع نہیں ہے بالکل ویسے ہی جیسے فاطمہ زهرا(س) اور جناب زینب(س) کے لیے پردہ تبلیغ امامت و ولایت کے لیے مانع نہیں تھا۔
نشست کی ناظر علمی محترمہ مرضیه سادات سجادی دبیر پژوهش گروہ مطالعات زنان مدرسۂ بنت الهدی نے بطور حسن ختام فرمایا کہ فاطمۂ معصومہ(س) کی زندگی کا ہر پہلو تاریخ میں جتنی بھی خواتین آئیں گی انکے لیے نمونہ اور آئیڈیل ہے اور آپ کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔