حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ اسلامی انقلاب ایران کی بیالسویں سالگرہ پر سکریٹری تنظیم المکاتب مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ نے بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء، مرسلین و ائمہ معصومین علیہم السلام، کتابوں اور صحیفوں کو بھیجااور سب نے انسان کو اس کے مقصد خلقت کی رہنمائی، اس کے مطابق عمل کی دعوت دی اور دنیا کو آخرت کی کھیتی بتایا۔ اور یہ تمام باتیں بغیر کسی ایسے نظام کے ممکن نہیں جس میں عدل و انصاف، امن و امان اور انسانی اقدار کے تحفظ کو اولیت حاصل نہ ہو ۔ لہذا رہبران الہی نے عادلانہ نظام قائم کرنے کی ہمیشہ کوششیں کی اور اس کے نمونہ بھی پیش کئے۔
مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ نے فرمایا: رہبران الہی کے نزدیک ہمیشہ نظام و حکومت وسیلہ رہا ،اسےانھوں نے کبھی مقصد نہیں سمجھا اسی لئے ان کےقائم کردہ نظام ہمیشہ ہر برائی سے پاک نظر آئے اور اگر کسی نے اس میں خلل ایجاد کیا تو چاہے وہ انکا اپنا ہو یا پرایا ہو اس سے کبھی نرم برتاو نہیں کیا اور عدل ومساوات کو فروغ دیا۔ امام خمینی اعلیٰ اللہ مقامہ نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا تا کہ ایک ایسی حکومت قائم ہو جو انسانی اقدار کی پاسبان ہو اور نہ فقط ملت ایران بلکہ دنیا کے تمام کمزوروں اور مظلوموں کی حمایت اور ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی جا ئے۔
سکریٹری تنظیم المکاتب نے کہا : امام خمینیؒ کا مقصد بھی حکومت نہیں تھا بلکہ ان کے نزدیک بھی حکومت وسیلہ ہی تھی۔ مقصد حق کا قیام اور باطل کا خاتمہ تھا ۔ اسی لئے آپ نے اسلام کے خلاف یاوہ گوئی کرنے والے سلمان رشدی کے بارے میںفتویٰ دیا اور جب کہا گیاکہ آپ کا یہ فتویٰ ملک کے لئے خطرناک ہے تو آپ نے فرمایا ’’ایران کی بقا ضروری نہیں بلکہ اسلام کی بقا ضروری ہے۔ ‘‘ ظاہر ہے ایسا عظیم نظام بغیر کسی عادل فقیہ کی قیادت کے بغیر ممکن نہیں جو اپنے نفس پر قابو رکھے، دین کی حفاظت کرے ، خواہشات نفسانی کا مخالف ہو اور مطیع مولا ہو لہذا آپ نے نظام ولایت فقیہ کو جاری کیا تا کہ معصوم کی غیبت کے دور میں وہ حکومت قائم ہو سکے جس کا سربراہ دین کو پہچانتا بھی ہو اور اس کے نفاذ کی ضمانت بھی ہو جو بغیر تفقہ اور عدالت کے ممکن نہیں۔
سربراہ تنظیم المکاتب نے فرمایا: دنیا میں بہت سے انقلاب آئے لیکن کچھ عرصہ میں ہی وہ گم ہو گئے لیکن اس انقلاب میں دین کو محوریت حاصل ہے اور کبھی بھی پس پردہ عوام کی تقدیر کا فیصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انکی جہالت سے انکو غلام بنایا جاتا ہے بلکہ عوام کی تعلیم و تربیت ورشد پر خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ انکی فکر میں بالیدگی اور شعور میں بلندی آئے، ان میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات پیدا ہو اور انہیں عدل و انصاف اور امن و سکون مل سکے جو انسانی حق ہے۔