۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حماسہ امام سجاد" نامی کتاب

حوزہ/ امام سجاد علیہ السلام کے غیر معمولی سیاسی ، تبلیغی اورثقافتی کارناموں کے بارے میں رہبرانقلاب اسلامی کی تقریروں اور بیانات پر مشتمل کتاب حماسہ امام سجاد نامی کتاب کی تقریب رونمائی رضوی علوم اسلامی میں انجام پائي۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بدھ تین مارچ کو منعقد ہونے والی اس تقریب میں آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام احمد مروی ، صوبہ  خراسان رضوی  کے گورنر محمد صادق معتمدیان ،مشہد مقدس کے امام جمعہ  حجت الاسلام محمد باقر فرزانہ  اور خراسان کے حوزۂ علمیہ کے مدیر آیت اللہ سید مصباح عاملی موجود تھے ۔ اس موقع پر آئمہ جمعہ کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ اور تہران کے عارضی امام جمعہ  حجت الاسلام حاج علی اکبری نے اپنے خطاب میں آئمہ اطہار علیھم السلام خاص طور پر حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارےمیں  رہبر معظم انقلاب کے بیانات اور تقریروں کے اقتباسات کا ذکر کیا۔

انہوں نے علما، محققین اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے قدیم شاگردوں کے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس نورانی کتاب میں جو بہترین جدّت اور روش نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مقدمے میں "250 سالہ انسان" کے اصل نظریئے کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس عمدہ نظریئے کے سلسلے میں بہت زیادہ جد وجہد کرنی ہوگی ۔ یہ بدیع اور پرکشش نظریہ میرے اپنے الفاظ میں"افاضۂ رضویہ" ہے ۔(یعنی فیض رضوی )

انہوں نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کی زندگي اور سیرت و تاریخ کے بارے میں " 250 سالہ انسان "  سے متعلق سطحی اور اجمالی نظرئے کو ایک تحقیقی نظرئے میں تبدیل کیا گيا ہے اور اس نظرئے میں آئمہ اطہار علیھم السلام کی پوری حیات اور ان کے ادوار امامت سے لے کر غیبت تک کے حالات اور تاریخ پر تحقیقی نظر ڈالی گئي ہے ۔  انہوں نے کہا کہ اس نظریئے میں اہل بیت (ع) کے عمل و گفتار میں مختلف موقعوں پر اور مختلف حالات میں جو کہيں کہیں ظاہری تضاد نظر آتا ہے ، اس کا مکمل  تجزیہ اور تشریح کی گئي ہے اور ثابت کیا گيا ہے کہ آئمہ کے اقوام میں تضاد نہيں ہوسکتا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس نظریئے کی بنیاد پر ایک تاریخی  دور ایک سماجی فکر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یعنی ائمہ کا کردار بامعنی ، مؤثر اور مختلف حالات و واقعات پر منطبق بن جاتاہے    اور سماج میں ایک ایسا اتحاد قائم ہوجاتا ہے جس میں سب کا ہدف ایک ہوتا ہے ۔ اور اس طرح معاشرے میں رسالت و امامت کے اثرات کو پوری طرح محسوس اور مجسم انداز میں دیکھا جاسکتا ہے  

حجت الاسلام حاج علی اکبری  نے اس نظریئے کی ایک اور خصوصیت یہ بتائی کہ یہ  بے اثر  مفاہیم کو مؤثر اور زندہ مفاہیم میں تبدیل کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا : اس نظریئے کی بنا پر امام کے تمام افعال و حرکات  یہاں تک کہ ان کی خاموشی کے معنی و مفہوم سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔ اور اس زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو ان ذوات مقدسہ کی تنہائی اور مظلومیت بھی تاریخ پر اثرانداز ہونے اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کا ایک طریقہ نظر آتی ہے ۔ ' 250 سالہ انسان "کے نظریئے میں اماموں کی زندگی کی ایک واضح اور سبق آموز تفسیر نظر آتی ہے اور اس کے ذریعے عوام ہر زمانے میں اپنے کرداراور مقام کا اندازہ لگاسکتے ہیں  کیونکہ اس میں مبہم نقاط کو پوری طرح واضح کیا گیا ہے اور عنوانات کو سماجی حقائق کی شکل میں کھول کر رکھا گیا ہے۔

حجت الاسلام حاج علی اکبری نے مزید کہا کہ رہبر انقلاب نے اس سلسلے میں جو ایک اور جدید روش کو اپنایا ہےوہ یہ کہ انہوں نے تاریخی مطالب  کو بحث و گفتگو کی شکل دیدی ہے۔ انہوں نے  ایک چھوٹے سے نکتے اور اشارے کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے ، اور ہر چیز کو واضح طور پر پیش کیا ہے۔

پروگرام کے اختتام پر اس اہم کتاب کی رونمائی کی رسم ادا کی گئی جس میں مذکورہ سرکاری اور مذہبی شخصیات موجود تھیں ۔  

تبصرہ ارسال

You are replying to: .