۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں جہاں جنت کی بشارت اور جہنم کا خوف دلایا گیا ہے وہیں دنیوی زندگی کے ہر شعبہ میں وہ ہدایات و احکام ہیں جن پر عمل انسان کی دنیا و آخرت میں خوشبختی کی ضامن ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ کالا امام باڑہ پیر بخارہ میں منعقد مجلس ترحیم میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اپنے شیعوں کو نصیحت "میرے لئے زینت کا سبب بننا، شرمندگی کا نہیں۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے مولانا سید علی ہاشم عابدی امام جماعت مسجد کالا امام باڑہ نے بیان کیا کہ جب کوفہ کے کچھ شیعوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نصیحت کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: میں تمہیں تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ کی اطاعت کرنا، اس کی نافرمانی سے دور رہنا اور ہماری خاموش تبلیغ کرنا۔ شیعیان کوفہ نے پوچھا مولا آپ کی خاموش تبلیغ کیسے ہوگی؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں سے محبت سے ملنا، عدالت اور امانتداری کو اپنا شیوہ بنانا جب لوگ تم میں صرف نیکیاں پائیں گے تو کہیں گے کہ اللہ انکے امام پر رحمت نازل کرے کہ انہوں نے ایسے چاہنے والے تربیت کئے ہیں۔ " امام عالی مقام نے اس حدیث میں زبان نہیں بلکہ عملی تبلیغ کی دعوت دی اور تبلیغ کی اہم روش کی رہنمائی فرمائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے اموی اور عباسی دور میں بھی اپنے نیک عمل، اطاعت و عبادت سے پہچانے جاتے تھے۔ ابن زیاد کے جاسوس نے جب شہید کربلا مسلم بن عوسجہ کا پتہ پوچھا تا کہ ان کے ذریعہ سفیر حسینی تک پہنچ سکے تو اسے بتایا گیا کہ مسجد کوفہ میں جو سب سے زیادہ عبادت میں مصروف نظر آئیں وہی امیرالمومنین علیہ السلام کے شیعہ مسلم بن عوسجہ ہوں گے۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں جہاں جنت کی بشارت اور جہنم کا خوف دلایا گیا ہے وہیں دنیوی زندگی کے ہر شعبہ میں وہ ہدایات و احکام ہیں جن پر عمل انسان کی دنیا و آخرت میں خوشبختی کی ضامن ہے۔ اسی لئے اسلام میں جہاں عبادات کے احکام ہیں وہیں معاملات پر بھی بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح اسلام نے جہاں خدا کے حقوق کی ادائگی کو واجب قرار دیا وہیں بندگان خدا کے حقوق کی ادائگی کو فرض کیا، جہاں اللہ کی نافرمانی گناہ ہے وہیں بندگان خدا کو اذیت پہنچانا بھی معصیت ہے۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ آج سب اپنے کو مسلمان مومن کہتے ہیں تو اگر سب اپنے دعوی میں سچے ہیں تو آج سماج میں صلہ رحمی کیوں نہیں؟ پڑوسی کے حقوق کی رعایت کیوں نہیں ہوتی؟ گھر اور سماج میں اختلافات کا راج کیوں ہے؟ طلاق کی شرحوں میں اضافہ کیوں ہے؟ سود اور رشوت کا بازار گرم کیوں ہے۔ اسی طرح نہ جانے کتنی مشکلات ہیں جو دیمک کی طرح انسانی اقدار، کرادار اور اخلاق کو کھوکھلا کر رہیں ان تمام برائیوں کی واحد وجہ دین سے دوری ہے، دین زبانوں پر ہے دل کے نہاخانوں میں نہیں لیکن اگر یہی دین زندگی میں اتر جاتا ہے تو آج بھی اپنے تو اپنے غیر بھی ایسے شخص کے سامنے سرتسلیم خم نظر آتے ہیں۔ عظیم عیسائی رہنما کہ جس سے دنیا ملاقات کی خواہاں ہو، انکا آیت اللہ العظمی سیستانی دام ظلہ سے ملاقات کو آنا اسی سلسلہ کی کڑی ہے، کیوں کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اس علی علیہ السلام کے چاہنے والے اور علی علیہ السلام کے سچے پیروکار ہیں جنھوں نے نہ فقط مسلمانوں بلکہ عیسائیوں سمیت پوری انسانیت سے عدل و انصاف کا برتاو کیا، اپنی چار سالہ حکومت میں جہاں مسلمانوں کے حقوق کی پاسبانی کی وہیں انسانی اقدار کو تحفظ بخشا، جہاں بیت المال کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھولا وہیں جب ایک مجبور و لاچار بوڑھے عیسائی کو بھیک مانگتے دیکھا تو اسکی بھی بیت المال سے کفالت فرمائی۔ مولا چاہتے ہیں ہمارے شیعہ ایسے ہوں جنکے کردار سے کردار علی علیہ السلام کی خوشبو آئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .