۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا عبید اللہ خان اعظمی

حوزہ/ ہندوستان کے معروف عالم اہل سنت اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی بعثت کی مناسبت سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آج پوری دنیا میں اسلام دشمن نہ شیعوں پر حملہ کر رہے ہیں نہ سنیوں پر بلکہ وہ اس دین  اسلام پر حملہ کر رہے ہیں جس کی پیروی شیعہ اور سنی دونوں کر رہے ہیں اور اس قرآن پر حملہ کر رہے ہیں جو شیعوں کو بھی چاہئے اور جو سنیوں کو بھی چاہئے ،وہ اس ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہیں جو ملت اسلامیہ شیعوں سے بھی منسوب ہے اور سنیوں سے بھی منسوب ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے نبی مکرم اسلام(ص) کی بعثت کی برکتوں کے بارے  میں  کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل  تک کی چالیس سالہ زندگی کا ہر لمحہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس چالیس سالہ زندگی میں بعثت کا چاند چھپا ہواہے اور رسالت کا سورج جگمگا رہا ہے چنانچہ جب چالیس بعد بعثت نبوی ہوتی ہے تو اللہ کے نبی کا امت کے لئے پہلا پیغام ’’اقراء باسم ربک‘‘ ہے یعنی نبی پاک نے اپنی بعثت کے ذریعہ امت کو علم سے نوازا، قرآن کریم نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کے ذریعہ انسانیت کو انسان بنانے اور تعمیر آدمیت کے لئے جو راستہ منتخب کیا،  وہ علم ہے۔

ہندوستان کے معروف عالم اہل سنت اور مشہور خطیب مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے کہا کہ حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے اپنی پوری زندگي میں اس علم قرآنی کو عملی طور پر دنیا کے سامنے اپنا کر یہ ثابت کر دیا کہ انسان کی خیرو صلاح وفلاح  اسی میں مضمر ہے کہ وہ علم دین سے وابستہ ہو جائے اور جب انسان علم دین سے وابستہ ہوجاتا ہے تو اسے اخلاق نبوت کی بھی  برکتیں اسے ملتی ہیں، رحمت نبوت کی بھی  برکتیں  اسے ب ملتی ہیں اور خصائص محمدی کی بھی برکتیں اسے ملتی  ہیں اور حضور پاک (ص) کی بعثت کا لب لباب یہ ہے کہ:
تو نے ثابت کر دیا ہے اے ہادی نوع بشر مرد یوں مہریں لگاتے ہیں جبین وقت پر

مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے پیغمبر گرامی اسلام(ص) نے قرآن کے ذریعہ اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا ہے اور ایران انہی عظیم الشان پیغمبر کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے آج اتحاد امت کا داعی ہے اس پس منظر میں کہا کہ ایران اس وقت اتحاد امت کے لئے جو کردار ادا کر رہا ہے ہم اس کی تعریف اور حمایت کرتے ہیں اور اس اتحاد کا دنیا سے مطالبہ بھی کرتے ہیں، حضور نے قرآن اور خدا کے پیغام کے ذریعے اتحاد کا میسج دیا اور ایران جو کہ وحدت امت کا اس وقت  داعی ہے  اور وہ جو کام کررہا ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور ہمارے نزدیک امت مسلمہ کی فلاح و بہود کے لئے ملت کا اتحاد از حد ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے دو مکتب فکر ہیں ؛ ایک مکتب فکر اہل تشیع کا ہے اور ایک اہلسنت کا،دونوں ہی دین سے وابستہ ہیں، اگرچہ دونوں کے مسلک الگ الگ ہیں لیکن دونوں مسلک دین کے تابع ہیں اور یہ دین ہے جو کسی مسلک کا تابع نہیں ہے ۔ اب اگر مسلکی اختلافات پائے جاتے ہیں تو ان کے باوجود ہمیں قدر مشترک پر متحد ہونا چاہئے اور قدر مشترک ختم نبوت ہے، لا الہ الا اللہ ہے،قبلہ و کعبہ ہے، مکہ و مدینہ ہے،تحفظ قرآن ہے، تحفظ ناموس رسالت ہے اور قدر مشترک تحفظ ملت و دین ہے۔

ہندوستان کے معروف عالم اہلسنت  عبید اللہ اعظمی کا کہنا تھا آج پوری دنیا میں اسلام دشمن نہ شیعوں پر حملہ کر رہے ہیں نہ سنیوں پر بلکہ وہ اس دین  اسلام پر حملہ کر رہے ہیں جس کی پیروی شیعہ اور سنی دونوں کر رہے ہیں اور اس قرآن پر حملہ کر رہے ہیں جو شیعوں کو بھی چاہئے اور جو سنیوں کو بھی چاہئے ،وہ اس ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہیں جو ملت اسلامیہ شیعوں سے بھی منسوب ہے اور سنیوں سے بھی منسوب ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب جیسے منافقین ملت اس استبدادی قوت کے ہاتھوں جس کا نام شیطان اکبر امریکہ ہے استعمال ہو رہے ہیں امریکہ وہابیت کو استعمال کرکے شیعوں اور سنیوں کے  مابین تفریق ملت کی خلیج کو اتنا وسیع کر کردینا چاہتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکیں۔

انہوں  نے  کہا کہ شیعہ اور سنی کے نام پر لڑانے والا جو کھیل انتہا پسند  عیسائی اور یہودی نظریات کھیل رہے ہیں اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ وہ براہ راست یہ کام انجام نہیں دے سکتے اس لئے سعودی عرب کو غلام بنا کر اور ان ڈاکوؤں کے ذریعہ امت مسلمہ میں تفریق ملل کی خلیج پیدا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی شیعہ سے نہیں کہتا کہ وہ سنی ہوجائے یا کوئی سنی شیعہ ہو جائے سب  کو  خدا کے سامنے جواب دہ ہ ہونا ہے ۔ انہوں  نے تکفیری نظریات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ  اسی دنیا میں  جو  جنت اور جہنم  آپس میں بانٹی جا رہی ہے اس سے فاصلے اور اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔  اس اختلاف سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آپ اگر مسلک شیعہ سے متفق نہیں ہیں تو نہ ہوں یا اگر آپ مسلک اہلسنت سے متفق نہیں ہیں تو نہ ہوں مگر قرآن اور اسلام  پر تو سب متفق ہیں تو؛لاشیعہ ولا سنیہ فقط اسلامیہ؛ کو  اپنا نعرہ قرا ر دیں ۔

مولانا  عبید اللہ خان  اعظمی نے کہا کہ سرزمین ایران  میں شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد علامہ خمینی رح نے اس اسلامیہ کے نعرے کو بلند کیا تھا اور اس وقت سے لے کر آج تک ایران میں یہ نعرہ لگایا جارہا ہے اور ایران جو کہ داعی اتحاد ہے اب بھی اس اتحاد ملت کا پابند ہے ۔ اس لئے ساری دنیا کے مسلمانوں کو علامہ اقبال کی اس فکر کے ساتھ ہونا چاہئے:
"ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .