۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
پیر معصوم حسین نقوی رهبر جمعیت علمای پاکستان(نیازی)

حوزہ/ اہل سنت عالم دین سید مولانا محمد معصوم حسین نقوی نے کہا کہ والدین نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو اخلاقی اقدارکا جنازہ نکل جائے گا من حیث القوم ہمیں قومی اخلاقیات کی مضبوطی پر توجہ دینا ہوگی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور/ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ و اہل سنت عالم دین سید مولانا محمد معصوم حسین نقوی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بے حیائی سے نئی نسل تباہ ہو رہی ہے ۔والدین نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو آئندہ نسلوں کی اخلاقی اقدارکا جنازہ نکل جائے گا۔نوجوانوں کے اسلامی اقدار سے دور ہونے کا خدشہ ہے۔من حیث القوم ہمیں قومی اخلاقیات کی مضبوطی پر توجہ دینا ہوگی۔ والدین کو بھی اولاد پر توجہ دینی چاہئے۔ پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی طرف سے ٹک ٹاک ایپ پر پابندی خوش آئند ہے۔

ہماری اپیل ہوگی کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کو بھی عدالت طلب کرے کہ وہ ٹک ٹاک پرفحاشی کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر کی مادر پدر آزاد معاشرے کی خواہش آئین کے خلاف ہے، جو واضح کرتا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔مادر پدر آزاد معاشرے اور اظہار رائے کی آزادی اسلام دیتا ہے اور نہ ہی آئین پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ جے یو پی سیکرٹریٹ میں مختلف وفود سے گفتگو میں پیر معصوم نقوی نے واضح کیا کہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کے ساتھ معاشرتی حدود و قیود اور ذمہ داریاں بھی ہیں،جنہیں پورا کیا جانا ضروری ہے۔

انہوں نے ٹک ٹاک پر پابندی کو سراہتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل بول پر بھی ٹک ٹاک پروموٹ کرنے والے پروگرام پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا اور آزاد میڈیا کو اسلامی اقدار کا پابند بنانے کو ضروری قراردیا۔

مولانا معصوم نقوی نے کہا کہ غیر اسلامی فحش مواد کی سوشل میڈیا پریلغار کو روکنے کے لئے اسلامی اقدار کو فروغ دینا ہوگا اور خاص طور پرآئندہ نسلوں کی اخلاقی تربیت کے لئے خواتین اور ماوں کو مضبوط بنانا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی طرح سوشل میڈیا کو بھی آئین اور اسلامی اقدار کا پابند کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ حیرت ہے کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے عدالتی احکامات کے باوجودفحش مواد نہ ہٹایا جس کا اعتراف پی ٹی آئی کے وکیل نے بھی کیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .