حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں بنیادی حقوق کےلئے صدائے احتجاج بلند کرنے کا مکمل اختیار ، آئین و قانون نے دیا ہے البتہ اپنے حق کےلئے اکٹھے ہونیوالوں کو مسلمہ عقائد ، تہذیبی ا قدار اور مسلمہ معاشرتی رویوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، تین برسوں سے 8مارچ کو ہونیوالے احتجاجی مظاہروں پر بعض اعتراضات، اشکالات اور اس کے رد میں توجیہات آرہی ہیں، ایسا اقدام ہی اٹھانے سے گریز کرناچاہیے جس پر ایک طرف اعتراضات اٹھیں،معاشرے میں بے چینی پھیلے یا پھر دوسری طرف سے توجیہات دینی پڑجائیں، ہم روز اول سے شہری آزادیوں کے علمبردار ہیں البتہ مسلمہ عقائد و نظریات، تہذیبی اقدار اور مسلمہ معاشرتی رویوں کی پاسداری بھی اچھے معاشرے کےلئے نہ صرف لازم ہے بلکہ ایسے اقدام سے گریزکرنا چاہیے جو معاشرے کو بے چینی، بے راہ روی، نفرت اور تعصب کی جانب دھکیلے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے 8مارچ کو عورت مارچ اور اسکے رد عمل میں مارچ ، کچھ متنازعہ پوسٹرز ، تحریروں ، تبصروں ، اخبارات و چینلز اور سوشل میڈیا پر جاری بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ تین برسوں سے خواتین کے عالمی یوم کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں عورت مارچ کے نام پر مظاہروں کا اہتمام کیا جارہاہے ، بنیادی حقوق کےلئے صدائے احتجاج بلند کرنا ہر شہری چاہے مرد ہے یا عورت اس کا بنیادی اور مساوی حق ہے اور یہ حق اسے دستور پاکستان اور قانون پاکستان دیتاہے جبکہ دستور تمام شہریو ں کے حقوق کا ضامن بھی ہے البتہ عورت مارچ کے کچھ پوسٹرز جنہیں اخبارات نے بھی شائع کیا، چینلز پر بھی یہ پوسٹرز چلے اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بحث نے بھی طول پکڑا ہے جس میں کئی پہلو ﺅں پر شدید اعتراضات کئے گئے ہیں ،احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں، اس پر کچھ سینئر صحافیوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ چینلز پر توجیہات بھی پیش کی گئی ہیں ۔
احتجاجی مظاہرہ یا مارچ جس مقصد کےلئے کیا جاتاہے اگر اس کی سپرٹ سے ہٹ جائے تو پھر تنازعات جنم لیتے ہیں اس لئے ایسے نعروں ، تحریروں سے گریز کیا جاناچاہیے جو مسلمہ عقائد و نظریات، تہذیبی اقدار اور فطرت کے منافی ہوں یا جن سے حقوق کی فراہمی کی بجائے بے چینی ، اضطراب یا نفرت پھیلنے کا اندیشہ ہو یا پھر اس کے بعد اعتراضات یا توجیہات کا نیا سلسلہ چل نکلے جس طرح 8مارچ کے بعدجاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ ریاست کا فرض بنتاہے کہ وہ تمام شہریوں کے حقوق کی پاسداری کرے، ہمارا روز اول سے نہ صرف مطالبہ بلکہ ہمارا ماٹو ہے کہ شہری آزادیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا البتہ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ معاشرتی ذمہ داریوں، حساسیت، مسلمہ عقائد و نظریات اور تہذیبی اقدار کی پاسدار کریں اور ایسے اقدام سے گریز کریں جو معاشرے کو بے چینی، بے راہ روی، نفرت اور تعصب کی جانب دھکیلے۔