حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے آستان قدس رضوی میں خدام کے لئے وعظ کرنے والے مدرسین اخلاق کے لئے منعقدہ پہلے ٹریننگ پروگرام کے آغاز کے موقع پر " انما بعثت لاتم مکارم الاخلاق " یعنی " میں اخلاقیات کی معراج کے لئے مبعوث ہوا ہوں" کی روایت کا ذکرکیا اور کہا کہ اس حدیث اور شب مبعث کی اس دعا سے جس میں " تجلی اعظم " اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تمام پیغمبروں کے فضائل کے جمع ہونے کی بات کہی گئی ہے ، یہ ثابت ہوتا ہے کہ اخلاقیات ہمیشہ تمام انبیاء کا نصب العین رہا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اخلاقی خوبیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اچھا اخلاق، صرف خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی پر ہی منحصر نہیں ہے، کہا کہ خوش خلقی کبھی کبھی اخلاقی خوبی ہو سکتی ہے لیکن اخلاقیات کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے اور وہ تمام اخلاقی فضائل جن پر اسلام میں تاکید کی گئی ہے ، اخلاقی خوبیوں کے دائرے میں آتے ہيں ۔
مکارم اخلاق، تازہ ہوا ہے جو سماج کی ترقی کا باعث ہيں
آستان قدس رضوی کے متولی نے صبر، استقامت، در گذر، ایثار، حسن ظن اور برائیوں سے دوری کو اخلاقی خوبیوں میں شامل بتایااور کہا کہ ہراس برائی سے اجتناب جن سے اسلامی شریعت نے روکا ہے یا جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کا انجام دینا یہ سب اخلاقی خوبیاں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ اخلاقیات وہ صاف ہوا ہے جو سماج میں جب چلتی ہے تو وہ اس کی صحت و سلامتی اور تکامل کی باعث بنتی ہے اور اخلاقی برائیاں وہ آلودہ ہوا ہے جو سماج کو بیمار کر دیتی ہے اور وہ زوال کی کھائي میں گر جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اخلاقی خوبیاں ، پاکیزہ باد صبا کی طرح ہیں جس کا انتظام اسلام نے انسانوں کے لئے کیا ہے تاکہ وہ ، کرامت ، عزت و انصاف پر مبنی صاف ستھرے ماحول میں پلے بڑھے اور پھلے پھولے ۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے اس بات پر زور دیتے ہوئےکہ اسلامی تربیت میں ایک اہم چیز ، تعلیم پر تزکیہ کا مقدم ہونا ہے، کہا کہ اسلام تعلیم اور پڑھنے لکھنے سے شروع ہوا ہے لیکن یہی اسلام کہتا ہے کہ تعلیم و تعلم سے قبل تزکیہ ہونا چاہيے اس لئے ہر عہدے ، منصب ، ذمہ داری اور سماجی کردار سے قبل تزکیہ ضروری ہے تاکہ ایک پاکیزہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کا پسندیدہ سماج بن سکے ۔
سماج میں اخلاقی فضائل کی ترویج ، ائمہ اطہار کی جد و جہد کا مقصد
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ پیغمبر اسلام کے ذریعے اسلامی حکومت کی تشکیل، حضرت علی علیہ السلام کے ذریعے حکومت کا قیام اور امام حسین علیہ اسلام کا قیام اسلامی نظام کی تشکیل کے لئے تھا تاکہ سماج میں اخلاقی فضائل کا رواج ہو اختیار کیا۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ائمہ اطہار کی تمام جد و جہد کا مقصد سماج میں اخلاقی خوبیوں کی ترویج تھا کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کا یہ بھی مقصد تھا کہ تمام فضائل کے مظہر حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیتوں کا تعارف ہو سکے۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے یہ سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام نے اخلاقی خوبیوں پر توجہ دینے اور غیبت ، سود جیسی برائیوں سے دور رہنے پر اتنی تاکید کی ہے ؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ یہ ہےکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسانی سماج، ایک پاکیزہ سماج بنے اور اسلام نے اس سماج کی شدید مذمت کی ہے جہاں غیبت، جھوٹ، حسد، تہمت اور بد گمانی ہو اور جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگي عذاب میں ہو ۔
اسلام ، انسانوں کے درمیان محبت کا خواہاں ہے
آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام والمسلمین مروی نے بتایا کہ اسلام نے اخلاقی خوبیوں پر اس لئے تاکید کی ہے تاکہ سماج میں الفت و محبت پیدا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ اگر سماج میں سخاوت و نیکی و احسان نہ ہو اور لوگوں کو ایک دوسرے کی ضروت نہ ہو تو سماج میں باہمی محبت کا ماحول بھی ختم ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے سماج میں نیکی و دوسروں کی مدد کا ماحول بنایا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ۔
انہوں نے کہا کہ نماز جماعت اور حج جیسی عبادتیں جنہيں ایک خاص وقت اور جگہ پر بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا ساتھ ، انسانوں میں محبت و الفت پیدا کرتا ہے اور اسلام یہی چاہتا ہے ۔
ائمہ اطہار کی سیرت سے مطابقت آستان قدس میں واعظین کی ٹریننگ کے پروگرام کا اصل مقصد
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امام رضا علیہ السلام کا حرم مطہر، پیغمبراسلام کے لخت جگر کا ہے سے متعلق ہے اس لئے یہاں ہر چیز مثالی ہونی چاہيے، کہا کہ یہ جو آستان قدس میں ہم نے واعظین کی ٹریننگ کو اولیت دی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت کا احساس ہوا ، یہ حجت خدا کا ادارہ ہے ، اس لئے اس ادارے کے کارکنوں اور عہدیداروں کا رویہ اس مقدس جگہ کی شایان شان ہونا چاہيے بلکہ ان کا رویہ پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار کی سیرت کے مطابق ہونا چاہيے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی ایک اچھا سلوک کسی شخص کو ہمیشہ کے لئے امام رضا علیہ السلام کا عقیدت مند بنا سکتا ہے اور کبھی ایک غلط رویہ کسی شخص کو ہمیشہ کے لئے اس مقدس مقام سے دور کر سکتا ہے اس لئے اس مقدس جگہ پر ہم اپنے ہر رویے کے ذمہ دار ہيں اور ہم اس کی طرف سے لاپروائي نہيں کر سکتے۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ اس مقدس ادارے کی حیثیت ، الہی ہے جو آج ہمارے پاس امانت کے طور پر ہے اس لئے ہمیں اس الہی امانت کی اپنے پورے وجود سے حفاظت کرنا چاہیے اور امام رضا علیہ السلام کی محبت لوگوں کے دلوں میں بڑھانے کے لئے تمام وسائل و صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہيے۔
انہوں نے کہا کہ آستان قدس رضوی میں ، چاہے خدام ہوں ، کارکنان ہوں، ان سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں امام رضا علیہ السلام سے محبت میں اضافہ کریں کیونکہ ان ائمہ اطہار کو بشریت کے لئے محفوظ رکھنے کے لئے بہت سے پاکیزہ خون بہائے گئے ہيں اور غاصبوں اور ظالموں کے ہاتھوں ، ہزاروں شیعہ اور اہل بیت کے چاہنے والے شہید ہوئے ہيں اور انہی قربانیوں کی وجہ سے آج یہ ادارہ قائم ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آستان قدس رضوی میں اخلاقیات کی تربیت کا پروگرام ، اعداد و شمار کے لئے کوئي روایتی یا نمائشی قدم نہيں ہے بلکہ ہم نے دل میں یقین کی وجہ سے یہ کام شروع کیا ہے ، کہا کہ جن واعظین کو اس طرح سے ٹریننگ دی جائے گی وہ پھر آستان قدس کے کارکنوں کو ٹریننگ دیں گے اس لئے یہ پروگرام کافی اہم ہے ۔
انہوں نے آستان قدس رضوی میں اخلاقیات کی ٹریننگ کا مقدمہ ، امام رضا علیہ السلام کی معرفت کا حصول قرار دیا اور کہا کہ اگر امام رضا علیہ السلام کی معرفت نہ ہوگی تو اس طرح کی ہزاروں بار کی ٹریننگ کا بھی اثر نہيں ہوگا اس لئے سب سے پہلے امام رضا علیہ اسلام اور فرشتوں کی جلوہ گاہ اس مقدس حرم کی شناخت ہونا چاہيے۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ جو شخص اس مقدس جگہ پر کام کرتا ہے اسے سب سے پہلے اپنی حیثیت کا پتہ ہونا چاہيے اور پھر اسے اس مقدس جگہ کے لئے ضروری شرائط کا علم ہونا چاہيے اور امام رضا علیہ السلام کے حرم میں خدمت کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سے بڑے بڑے علماء کے دلوں میں اس مقدس مقام میں خدمت کی خواہش تھی ، آستان قدس میں مستقبل میں اخلاقیات کا درس دینے والے اساتذہ سے کہا کہ ہر موعظہ میں اثر کی شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم خود اپنے واعظ بنیں، سب سے پہلے ہم خود کی اصلاح کریں اور خود کو بہتر بنائيں اس کے بعد دوسروں کو راہ دکھائيں۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے آخر میں ، عظیم علمائے اسلام کی زندگی کو اخلاقی خوبیوں کی ترویج کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ ہمارے عظیم علماء کی زندگياں روحانیت اور خدا کے لئے اخلاص سے معمور ہيں اس لئے عوام میں انہيں بیان کیا جانا چاہيے ۔