تحریر : مولانا اجمل قاسمی
حوزہ نیوز ایجنسی। تین جون کا لفظ یاد آتے ہی حضرت امام خمینی کے جنازے کے مناظر دماغ میں گھومنے لگتے ہیں۔دلوں پر حکمرانی کے لحاظ سے ۳جون کو ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے، یہ دن حضرت امام خمینیؒ کی وجہ سے تو معروف ہے ہی لیکن اس دن کا گلگت کی مقامی تاریخ سے بھی ایک گہرا تعلق ہے۔اور وہ گہرا تعلق کچھ یوں ہے کہ سال ۲۰۰۴ میں اسی روز اذان فجر سے قبل پورے گلگت شہر میں کرفیو نافذ کیا جاچکا تھا، شہر کے چوراہوں، سڑکوں اور گلیوں میں بھی پولیس، رینجر اور فوجی اہلکار تعینات کئے جاچکے تھے۔
اس وقت شہر کے لوگ آرام سے سورہے تھے اور انہیں خبر ہی نہیں تھی کہ آج کا سورج طلوع ہوتے ہی ان کا شہر اندھیروں اور خاموشی میں ڈوبنے والا ہے۔ فجر کی اذان سے قبل ہزاروں سیکیورٹی اہلکار شہر میں داخل ہوکر اپنی پوزیشنیں سنبھال چکے تھے۔ عوام کی خوف سے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی گاڑیوں کو اسٹارٹ کئے بغیر دھکا دے کر مختلف علاقوں تک پہنچایا تھا تاکہ جو کارروائی ہونے والی ہے اس کی کسی کو خبر نہ ہو۔ لیکن اذان سے قبل ہی لوگ تک خبر پہنچ گئی کہ شہر میں، رات کی تاریکی میں کچھ ہونے جارہا ہے۔
جس کو خبر ملی اس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ رات کے آخری پہر میں آخر ہوکیا رہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز، بکتر بند گاڑیوں اور اسلحے سے چوکس یہ اہلکار آخر جا کہاں رہے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور آرمی کے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل جدید ہتھیار اور ساز و سامان سے مسلح یہ قافلہ جب امامیہ جامع مسجد گلگت سے گزر کر آگے بڑھنے لگا تو دیکھنے والے سمجھ گئے کہ اس مسلح دستے کا رخ مرد مجاہد آغا سید ضیاءالدین رضوی کی رہائش گاہ کی طرف ہے۔
آس پاس میں موجود مومنین اپنی مدد آپ کے تحت گلیوں سے گزر کر شہید کے گھر کی جانب چل پڑے۔ کرفیو کے باوجود آذان فجر سے قبل مومنین کی کثیر تعداد شہید آغا سید ضیاءالدین رضوی کی رہائش گاہ کے باہر پہنچ چکی تھی۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے گھر اور پورے محلے کو سیل کردیا تھا۔ پورے شہر میں کرفیو نافذ تھا جس کی وجہ عوام کو احتجاج سے روکنا تھا۔
شہید کی رہائش گاہ پر ان کے ذاتی محافظوں کے علاوہ دو یا تین افراد کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ باقی مومنین کی بڑی تعداد گھر سے باہر پہنچ چکی تھی۔ جب سیکیورٹی ادارے کے اعلی آفیسر نے شہید کے گھر پہنچ کر انہیں ساتھ چلنے کی درخواست کی تو شہید نے اپنی گھڑی میں ٹائم دیکھنے کے بعد کہا کہ آذان کو چند منٹ رہتے ہیں آپ لوگ ذرا صبر کرلیں نماز پڑھنے کے بعد چلتے ہیں۔ پورے شہر میں کرفیو نافذ ہے شہید آغا سید ضیاءالدین رضوی کو ان کے گھر اور محلے سمیت ہزاروں اہلکاروں نے گھیرے میں ڈالا ہوا ہے اور ان کی گرفتاری کے لئے فورسز ان کے گھر میں داخل ہوچکی ہیں لیکن وہ بالکل مطمئن اور آرام ہیں۔ مرد مجاہد کے دل و دماغ میں یا ظاہری طور پر بھی خوف و خطرے کا کوئی نام و نشان نہیں۔ اطمینان کے ساتھ نماز فجر ادا کرنے کے بعد کمرے سے باہر نکلے اور کہا کہ چلیں۔
شہید کے گھر سے باہر کافی دور تک روڈ پر مومنین لیٹ چکے تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ اگر آغا کو گرفتار کرکے لے جانا ہے تو اپنی گاڑیوں کو ہمارے اوپر سے گزار کر لے جائیں۔ سیکیورٹی فورسز مومنین کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہر ایک یہی کہہ رہا تھا گاڑیاں ہماری لاشوں سے گزر کرجائیں گی۔ طویل وقت گزرنے کے بعد مقامی علمائے کرام نے مومنین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آغا جلدی واپس آئیں گے انہیں کہیں نہیں لے کے جارہے حکومت کے ساتھ بات چیت کرکے واپس آرہے ہیں۔ لوگ پھر نہیں مانے۔ آخر میں خود شہید مومنین سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں سے الجھنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور میں اپنے موقف کو مزید واضح، شفاف اور مدلل انداز میں حکمرانوں تک پہنچاوں گا۔ ہمیں گرفتار کرکے یا جیل میں ڈال کر ہمارے موقف اور مطالبے کو کوئی کمزور نہیں کرسکتا۔ آپ لوگ حوصلہ نہ ہاریں اور اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اپنے مطالبات پر ثابت قدم رہیں۔ کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹنا۔ وہاں موجود مومنین کے جذبات قابل دیدنی تھے ایک طرف آغا کو گرفتار ہوتے دیکھ کر رورہے تھے۔ دوسری جانب آغا اور ان کے موقف کے حق میں بھرپور نعرے لگارہے تھے۔
صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی سب تک خبر پہنچ گئی کہ شہر میں کرفیو نافذ ہے۔ آغا سید ضیاءالدین رضوی کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ یہ تین جون 2004 کی صبح تھی۔ انظامیہ کی جانب سے نافذ کردہ کرفیو کسی کو گھر میں بند نہ کرسکی۔ آغا کی گرفتاری کی خبر سن کر ہر کوئی بے تاب و بے چین ہوکر گھر سے نکل پڑا۔ اور اس دن کرفیو کے باوجود بغیر کسی کال کے، بغیر کسی کے کہنے کے مومنین نے زبردست احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران ایک نوجوان واجد حسین سیکیورٹی فورسز کی گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔ دن کے ایک بجے کے قریب مساجد اور امام بارہوں سے اعلانات ہونے لگے کہ احتجاجی مظاہروں کو ختم کیا جائے، حکومت نے جلد آغا کو رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یوں یہ احتجاج اپنے اختتام کو پہنچا اور سرزمین گلگت میں دلوں پر حکمرانی کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔