حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے امام رضا اور ادیان کے مکالمے کے عنوان سے ایک بین الاقوامی نشست منعقد ہوئی جس میں ایران، لبنان، اسپین اور ہندوستان جیسے ملکوں سے مختلف ادیان و مذاہب کے کے علما، دانشوروں اور مفکرین نے شرکت کی
نشست کا اہتمام حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں کیا گیا جس میں علما، مفکرین اور دانشوروں نے شرکت کی اور بعض مہمانوں نے ویڈیولینک کے ذریعے اس میں حصہ لیا۔
لبنان کے مسلم اسکالرز کی ایسوسی ایشن کے صدر شیخ غازی حنینہ نے اس علمی نشست میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فلاح و نجات کا راستہ پیغمبر گرامی اسلام(ص) اور آپ کی اہلبیت (ع) سے محبت ہے اور انسان کی بہتر عاقبت رسول خدا(ص) اور آپ کے خاندان پاک سے عشق و محبت سے ہی ممکن ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز شیعہ عالم دین اور مفکر آیت اللہ محمد ہادی عبد خدائی نے نشست میں عقل کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عقل و نفس کے مابین کشمکش اور مقابلہ آرائي میں بہت سارے مقامات پر نفس جیت جاتا ہے اور عقل کو شکست ہوتی ہے اور عقل ؛ نفسانی خواہشات کا جواز پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی سے انسان اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور احساسات و جذبات کو ایک برتر وبالا حاکم کی ضرورت ہے اور وہ بالا و برتر ذات فقط خداوند متعال کی ہے جس کا کلام آخری اور فیصلہ کن ہوتا ہے اور وہ اپنے برگزیدہ بندوں پر وحی نازل کرتا ہے اور اسی چیز سے وحی اور انبیاءالہی کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے۔
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لبنانی مصنف اور مفکر ڈاکٹر مشال کعدی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادیان و مذاہب کے ساتھ حضرت امام رضا علیہ السلام کے مناظرے؛ امام علیہ السلام کی عظمت کی دلیل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بشریت نے امام رضا علیہ السلام کی انکساری و تواضع جیسی انکساری وتواضع نہیں دیکھا، امام علیہ السلام کی انکساری کی نشانی یہ ہے کہ امام رضا(ع) چھوٹوں اور بڑوں سب کو معاف کر دیتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں امام (ع) کا سب سے اہم مقصد لوگوں کو اتحاد و یکجہتی اور وحدت کی دعوت دینا اور دین اسلام کو قائم، شریعت اور احکام خداوندی کا نفاذ اور اچھے اخلاق کو رائج کرنا ہے۔
عیسائی مفکر اور مصنف ڈاکتر الیاس الہاشم نے بھی اس نشست کو خطاب کیا اور امن کے مقولے کو دین ومذہب کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اپنی زندگی دین و مذہب کے سائے میں بسر کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ دین ہے جس میں نفس و روح دونوں کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہو اور خدائے واحد کے سامنے سرتسلیم خم ہو۔
ایران کے زرتشتیوں کی ایسوسی ایشن کے نمائندے بہزاد نیک نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں گذشتہ چار دہائیوں سے توحیدی ادیان و مذاہب کے پیروؤں کی مسالمت آمیز زندگي، باہمی ہمدردی و ہمدلی اور قومی اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے اور یہ سب اسلامی جمہوری نظام کے سائے میں وجود میں آیا ہے۔
لبنان کی یونیورسٹی کی اکیڈمک کمیٹی کے رکن دیزیره حبیب سَقّال نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ارشادات ان جملہ موضوعات میں سے ہيں جن پر تمام مفکرین اور دانشور اتفاق نظر رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ امام علیہ السلام کا رجحان باہمی یکجہتی کی طرف رہا ہے اور آپ(ع) نے ادیان و مذاہب کے مابین گفتگو کا سلسلہ شروع کیا خاص طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مابین ۔
واضح رہے کہ عالمی معاشرے میں مسالمت آمیز زندگی کے موضوع پر امام رضا اور ادیا ن کے مکالمے کے زیرعنوان یہ بین الاقوامی نشست انتیس صفر کی آمد یعنی فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی تاریخ شہادت کی مناسبت سے آستان قدس رضوی کے غیرملکی زائرین کے ادارے کی جانب سے منعقد کی گئی۔