۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ہندوستان کی شدت پسند تنظیمیں اور مسلم خواتین کے مسائل

حوزہ/ موجودہ دور میں ھندوستان کا مسلم سماج جس چیز سے روبرو ہے اس کا تعلق ھندو مذھب سے نہیں ہے بلکہ کچھ شر پسند عناصر مغربی دنیا کے تحت تاثیر ھندوستان میں اسلام فوبیا کو ترویج دے رہے ہیں اور مسکان خان کے ساتھ رونما ہونے والے حالات بھی اس سازش کا نتیجہ ہیں ۔

مولانا اشہد حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسیہندوستان کی سرزمین، گنگا جمنی تہذیب کی حامل وہ سرزمین ہے جہاں گذشتہ زمانے سے تمام مذاھب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ ، ہمسایگی و پڑوس میں صلح امیز زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام و پاس و لحاظ کرتے آئے ہیں ، ملک کی بڑی ابادی یعنی ھندو مذھب کے ماننے والوں کو نہ فقط یہ کہ دین اسلام کے ماننے والوں سے کسی قسم کی قباحت ، مشکلات اور بیر نہ تھا بلکہ مختلف مقامات پر ان کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں اس کی گواہ ملک کے متعدد صوبوں میں ھندو مذھب کے ماننے والوں کی جانب مسجد اور عبادتگاہوں کی تعمیر کیلئے زمین کا تحفہ یا مالی امداد پیش کیا جانا یا بعض علاقوں میں نمازگزاروں کیلئے مندروں کے دروازے کھول دینا ہے ۔

ان تمام باتوں کے باوجود کچھ شرپسند گروہ اور شدت پسند تنظیموں نے ملک میں برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے سیاسی منافع کی تامین میں باہمی اتحاد و ہمدلی کے ماحول اور تہذیب کو مستقل طور سے نشانہ بنا رکھا ہے ، جہاں مسلم خواتین کی حمایت کے بہانے طلاق ثالثہ کے مسئلہ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا اور ملکی و قومی سطح پر انہیں بدنام کرنے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑی وہیں پردہ اور حجاب کے خلاف بھی جم کر معرکہ ارائی کی اور " بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو" کے فریبی نارے کو مسلم لڑکیوں کے تعلیم اور مسلم ملازم خواتین سے کوسوں دور رکھا ۔

ملک میں بر سراقتدار پارٹی کے اکثریتی علاقہ میں گذشتہ برسوں میں مختلف شھروں کے اسکولوں میں با پردہ طالبات اور اساتذہ کو پردہ چھوڑنے کی تلقین کی گئی ، ان پر دباو ڈالا گیا اور مخالفت کی صورت میں انہیں اسکول یا ملازمت سے سکبدوش کردیا گیا جبکہ ملک کا آئین ہرھندوستانی کو اپنے دین اور مذھب کے ائین پر عمل کرنے اور اس کے تحت زندگی بسر کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔

گذشتہ دنوں ھندوستان کے جنوبی علاقہ کرناٹک کے اسکولوں میں مسلم طالبات کے ساتھ تعصب اور تبعیض امیز برتاو کی مستقل خبریں موصول ہوتی رہیں، طالبات کو نقاب اور پردے کے ساتھ اسکول کے کیمپس میں داخل ہونے سے روکنا، اصرار اور شکایت کی صورت میں فقط اسکول کی باونڈری میں آنے کی اجازت دینا مگر انہیں کلاس روم میں بیٹھنے سے روکنا اور طالبات کو اسکول کی لابی اور کوریڈور میں بیٹھکر پڑھنے پر مجبور کرنا اور بعض دیگر اسکولوں میں اسٹوڈنٹس کو ورغلا کر ان کے خلاف نارے بازی کرانا اور انہیں ھراساں کرنا معمول بن چکا ہے، با پردہ طالبہ مسکان خان کے خلاف اسکول کے کیمپس جے شری رام کے لگنے والے نارے، ان تمام واقعات میں سے ایک واقعہ ہے ۔

جبکہ اگر ہم دیکھیں تو پردہ اور حجاب انسان کی فطرت کا تقاضہ ہے دین اسلام سے پہلے موجود ادیان میں حتی زمانہ جاہلیت کی خواتین بھی پردہ کرتی تھیں ، دین مبین اسلام نے فقط پردہ کی نوعیت میں تبدیلی اور اسے مکمل کیا ہے ، ھندو معاشرہ اور سماج بھی اس سے مستثنی نہیں تھا، ھندو سماج کی بڑی قوموں کی خواتین جیسے پنڈت ھمیشہ گھوگھنٹ نکال کر اور چہرہ ڈھنک کر گلیوں اور سڑکوں پر نکلا کرتی تھی ۔

شھید علامہ مرتضی مطهری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ھندوستان میں سخترین پردہ اور حجاب موجود تھا کہ معلوم نہیں ہے کہ یہ پردہ اسلام کے پہونچنے سے بھی پہلے وہاں تھا یا نہیں مگر جو چیز مسلم ہے وہ یہ کہ اگر ہم دنیاوی لذات سے دوری پردہ کا سبب جانیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ھندوستان میں حجاب اور پردہ کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔[1]

لہذا موجودہ دور میں ھندوستان کا مسلم سماج جس چیز سے روبرو ہے اس کا تعلق ھندو مذھب سے نہیں ہے بلکہ کچھ شر پسند عناصر مغربی دنیا کے تحت تاثیر ھندوستان میں اسلام فوبیا کو ترویج دے رہے ہیں اور مسکان خان کے ساتھ رونما ہونے والے حالات بھی اس سازش کا نتیجہ ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: شھید مطهری، مرتضی، مسئلة حجاب، صدرا پبلیشر، دفعات طباعت 44 ، 1375، ص 25-24.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .