۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سعودی

حوزہ/ برطانوی "اکانومسٹ" کے تجزیاتی جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں سعودی عرب کی علاقائی پالیسی میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاض شامی حکومت اور یمن کی تحریک انصار اللہ کے ساتھ سمجھوتے کا خواہاں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تجزیاتی نیوز میگزین "اکانومسٹ" نے علاقائی جماعتوں کے حوالے سے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی۔

اس برطانوی اشاعت نے لکھا ہے کہ ریاض نے خطے کے ممالک کے ساتھ دشمنی کی حکمت عملی اور ان کی حکومتوں [مثال کے طور پر شام اور یمن] کا تختہ الٹنے کی حکمت عملی کے بجائے مفاہمت کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس انگریزی میگزین نے کہا: "سفارت کار شاذ و نادر ہی شکست قبول کرتے ہیں، لیکن سعودی وزیر خارجہ نے 18 فروری کو میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں بالکل یہی کیا۔"

اس رپورٹ کے مطابق، بشار الاسد کو "خون آلود ہاتھوں والا شام کا ڈکٹیٹر" قرار دینے والی سعودی حکومت نے بہت چاہا کہ بشار الاسد کو تنہائی اور بے دخلی میں رکھا جائے، لیکن سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس 2023 میں سعودی عرب کا اپنا راستہ تبدیل کتنے کی ایک افواہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: بشارالاسد کو تنہا کرنے کی کوشش اپنے اختتام کے قریب ہے، اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ یہ صورتحال اب قابل عمل نہیں ہے۔"

اس انگریزی اشاعت کے مطابق، سعودی عرب بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے پہلے درجے کے حامیوں میں شامل تھا اور اس نے 2012 میں شامی باغیوں کو ہتھیار اور رقم بھیجنا شروع کی تھی۔ بلاشبہ، اس بغاوت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، خلیج فارس کے ممالک اور مغربی ممالک کے ہلکے ہتھیار ایران اور روس کے ہتھیاروں کا مقابلہ نہ کر سکے۔

البتہ بشار الاسد کے ساتھ سعودی تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سعودی بشار الاسد کے تباہ شدہ ملک کی تعمیر نو کا خرچہ اٹھائے گا اور نہ ہی یمن جنگ کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ ریاض تعمیر نو کی کوششوں کے لیے فنڈز فراہم کرے گا، جس پر عالمی بینک کے اندازے کے مطابق تقریباً 25 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .