حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں ۱۸ رمضان المبارک کی شب سرزمین قم المقدسہ پر جوار کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ (س) میں مجلس عزا کا انعقاد ہوا۔ جس میں حجۃ الاسلام سید جواد عسکری رضوی (منہال گوپالپوری) نے خطاب کیا، مجالس کا سلسلہ 18 رمضان المبارک سے 28 رمضان المبارک تک جاری رہے گا جسے مختلف علماء خطاب فرمائیں گے۔
مولانا نے اپنی تقریر میں آیت : "یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین" اپنا سرنامہ سخن قرار دیا۔
موصوف نے ایک بہترین قصہ نقل کیا کہ : ایک مرتبہ معاویہ، یزید، اور عمرو عاص بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ تحائف پیش کئے گئے، انہوں نے آپس میں کہا کہ ہم میں سے جو بھی اچھا شعر سنائے گا یہ تحائف اس کے ہوں گے۔
معاویہ نے کہا:
خیر البریۃ من بعد احمد حیدر
فالناس ارض والوصی سماہ
احمد (ص) کے بعد روئے زمین پر حیدر ع بہترین بشر ہیں۔
عالم انسانیت زمین ہے تو وصی آسمان۔
مولانا منہال گوپالپوری نے کہا کہ اس شعر سے پتہ چلتا ہے کی اس وقت دشمن تک یہ مانتے تھے کہ امیر المومنین علیہ السلام ہی وصی اور ولی ہیں۔
یزید نے کہا کہ: ملیحۃ ماشھدت بھا ضرائھا
والحسن ما شھدت بہ الضراء۔
بہت سے حسن ایسے ہیں جن کی گواہی سوتوں نے دی ہے۔
اور حسن و جمال وہی ہےجس کی گواہی سوتیں دیں۔
عمرو عاص نے کہا کہ:
واللہ لقد شھد العدو بفضلہ۔
والفضل ما شھد بہ الاعداء۔
خدا کی قسم دشمنوں نے انکی فضیلت بیان کی۔
اور فضیلت وہی ہےجسکی دشمن گواہی دیں۔
مولانا جواد عسکری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک شبھہ کا بہترین جواب دیا، لوگ کہتے ہیں کہ جس کے پیروں سے حالت نماز میں تیر کھینچ لی جائے اور اسے پتہ نہ چلے اس نے حالت نماز میں سائل کا سوال کیوں کر سن لیا؟
مولانا نے کہا کہ: تیر کے نکالے جانے کا تعلق عالم مادہ سے ہے جو کہ دنیاوی ہے جبکہ سائل کو عطا کرنے کا تعلق عالم معنوی سے ہے جو کہ اخروی ہے اس لئے حالت نماز میں تیر کے نکالے جانے پر محسوس نہ ہونے اور سائل کو دینے میں تناقض نہیں پایا جاتا۔
اپنی تقریر کے آخری حصہ میں مولانا نے شب ضربت امیر المومنین علیہ السلام کے مصائب پڑھے اور ختم و دعا سے تقریر کا اختتام کیا۔
مجلس کے فورا بعد مولانا منھال رضوی کی اقتداء میں نماز مغربین ادا کی گئی اور اسکے بعد افطار کا وسیع انتظام کیا گیا جس میں طلاب و افاضل قم مہمان دسترخوان افطار ہوئے۔