۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 392556
12 اگست 2023 - 14:38
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/امام زین العابدین علیہ السلام ہمارے چوتھے امام ہیں، آپؑ کے والد ماجد سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو سلام اللہ علیہا تھیں جو ایران کی بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ آپؑ کا نام ‘‘علیؑ’’، کنیت ابوالحسن اور القاب زین العابدین، سید الساجدین، سجاد اور ذوالثفنات ہیں۔ آپؑ اپنے زمانے میں ‘‘علی الخیر’’ اور ‘‘علی العابد’’ کے نام سے مشہور تھے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| امام زین العابدین علیہ السلام ہمارے چوتھے امام ہیں، آپؑ کے والد ماجد سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو سلام اللہ علیہا تھیں جو ایران کی بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ آپؑ کا نام ‘‘علیؑ’’، کنیت ابوالحسن اور القاب زین العابدین، سید الساجدین، سجاد اور ذوالثفنات ہیں۔ آپؑ اپنے زمانے میں ‘‘علی الخیر’’ اور ‘‘علی العابد’’ کے نام سے مشہور تھے۔

امام زین العابدین علیہ السلام عادل حاکم امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے دور حکومت میں 5؍ شعبان المعظم یا دوسری روایت کے مطابق 15؍ جمادی الاول سن 38 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ 21؍ رمضان سن 40 ہجری تک اپنے جد بزرگوار مولی الموحدین امیرالمومنین امام المتقین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کے زیر سایہ پروان چڑھے، جب کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں آپؑ کے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت ہوگئی تو آپؑ نے اپنے چچا سبط اکبر رسول خدا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے دس سالہ دور امامت میں زندگی بسر فرمائی۔

28؍ صفر سن 50 ہجری میں جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت ہو گئی تو آپؑ کے والد ماجد امام حسین علیہ السلام کے دور امامت کا آغاز ہوا ، اس وقت آپؑ کی عمر مبارک 12 برس تھی، المختصر امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں آپؑ کا دورہ مہد اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آپ کا دورہ مشی گذرا ، نو جوانی اور جوانی کا زمانہ امام حسین علیہ السلام کے دور امامت میں گذارا۔

آپؑ ہر محاذ پر ایک مطیع محض کی طرح امام حسین علیہ السلام کے ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ شام کے حاکم نے جب اس دنیا سے کوچ کیا اور نص الہی کے ساتھ ساتھ امام حسن علیہ السلام کے صلح نامہ کے شرائط کے برخلاف اس کا پلید بیٹا یزید برسر اقتدار ہوا اور اس نے امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرنے کے بجائے خود امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ کیا جسے امام عالی مقام نے ٹھکرا دیا اور اپنے کنبہ کے ہمراہ 28؍ رجب سن 60 ہجری کو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب سفر کیا تو امام زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، مکہ مکرمہ میں چند ماہ قیام کے بعد 8؍ ذی الحجہ سن 60 ہجری کو عین یوم حج کے دن جس دن سارے حاجی مکہ مکرمہ میں ہوتے ہیں امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل و عیال اور اصحاب کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے کوچ فرمایا۔ حج کرنے والے حج کر کے حج کو نہ بچا سکے لیکن امام حسین علیہ السلام نے حج کو ترک کر کے نہ صرف حج بلکہ پورے دین کو بچا لیا بلکہ انسانیت کو تحفظ بخشا۔

عصر عاشور کو میدان کربلا میں جب امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت ہوئی تو امام زین العابدین علیہ السلام کے دور امامت کا آغاز ہوا، شہادت حسینی کے سبب زمین کربلا کو زلزلہ آ گیا، سیاہ آندھیاں چلنے لگیں اور سورج کو گہن لگ گیا تو امام زین العابدین علیہ السلام نے بحیثیت امام پہلا حکم زمین کو دیا کہ وہ ساکن ہو جائے۔ ظاہر ہے امام تمام خلق خدا پر حجت رب ہوتا ہے لہذا امام کی اطاعت سب پر فرض ہے۔ لہذا زمین ساکن ہو گئی و گرنہ عصر عاشور کو ہی کائنات ختم ہو جاتی۔

امام زین العابدین علیہ السلام کو آغاز امامت میں ہی اموی و یزیدی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ، یا یوں کہا جائے کہ صبح قیامت تک انسانیت کی محافظ تحریک کربلا کہ جس تحریک کے دو باب ہیں ایک باب شہادت دوسرا باب اسارت ہے۔ شہداء کربلا نے اپنی قربانیاں پیش کرتے ہوئے عروس شہادت کو گلے لگایا ، شہادت کے بعد نوبت اسارت کی تھیں قافلہ شہادت کے میر کارواں امام حسین علیہ السلام تھے اوراسیران کربلا کے میر کارواں امام زین العابدین علیہ السلام تھے اور اس قافلہ سالاری میں آپؑ کی مددگار آپؑ کی پھوپھی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا تھیں۔

میدان کربلا میں شہداء کی شہادت کے بعد یزید اور یزیدی یہی سمجھے کہ ہم کامیاب ہوگئے، ہم نے دین خدا کو ختم کر دیا، انسانی اقدار کو پامال کر دیا ، اہل حرم کہ جنمیں ایک بیمار امام ؑ کے علاوہ خواتین و بچے ہیں، لہذا جب ان پر بھی ظلم ہو گا تو کون اعلاء کلمۃ اللہ کرے گا؟ لیکن تاریخ نے دیکھا کہ یہ ایسے اسیر تھے جنہوں نےہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسلام کو آزاد اور انسانیت کو آزادی کا حوصلہ اور نہ صرف یزیدیت بلکہ پورے سلسلہ ظلم و غصب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کر دیا اور ابدی ذلت و رسوائی اور عذاب ان کامقدر بنا دیا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ ابن شهاب زهرى نے بیان کیا ؛ جس وقت عبد الملک بن مروان امام على بن الحسين علیہ السلام کو مدینہ سے شام لایا تو آپ زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے ۔میں نے ان سے ملاقات کا تقاضا کیا تو مجھے ملاقات کی اجازت ملی۔

میں نے دیکھا کہ امام کے ہاتھ اور پیر غل و زنجیر میں بندھے ہوئے تھے یہ حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کیا : کاش میں آپؑ کی جگہ ہوتا۔ اس وقت امام ؑ نے فرمایا : زہرى! کیا یہ سمجھتے ہو کہ یہ غل و زنجیر میرے لئے تکلیف کا باعث ہے ۔اگر میں چاہوں تو اس سے خود کو آزاد کر سکتا ہوں ۔ تم جیسے لوگ اس کو دیکھنے سے منقلب ہوتے ہو لیکن یہ زنجیریں مجھے آخرت کے عذاب کی یاد دلاتی ہیں ۔ یہ کہہ کر خود کو غل و زنجیر سے آزاد کر دیا اور فرمایا : زھری میں مدینہ تک دو منزل سے زیادہ اس غل و زنجیر کے ساتھ نہیں رہوں گا۔

زھری کا بیان ہے کہ چار راتوں کے بعد نگہبان مدینہ واپس آئے اور امام کی تلاش میں لگ گئے لیکن انہیں نہیں پایا ، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ ان کا کیا ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا : ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنات ہیں ،جب بھی ہم سواری سے نیچے اترتے تو ہم ان کو گھیرے میں لیتے اور مکمل ان کو نظر میں رکھتے ۔لیکن ایک دن صبح کے وقت صرف غل و زنجیر ہی دیکھا انہیں نہیں پایا۔

زہری کا بیان ہے اس واقعہ کے بعد میں عبد المالک کے پاس گیا اور اس نے امام على بن الحسين علیہ السلام کے بارے میں پوچھا میں نے مذکورہ واقعہ بیان کیا ۔ تو عبدالملک بن مروان نے کہا کہ جس دن وہ غائب ہوئے ہیں اسی دن وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا: مجھے تم سے کیا لینا دینا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ میرے پاس ہی رہیں ۔ انہوں نے جواب دیا : مجھے یہاں رہنے کا کوئی شوق نہیں اور میرے پاس سے چلے گئے ، اللہ کی قسم یہ منظر دیکھ کر مجھ پر وحشت طاری ہو گئی ۔ زھری کہتے ہیں : میں نے اس سے کہا : علی ابن الحسین علیہ السلام ایسے نہیں ہیں جیسا تم سوچتے ہو وہ اپنے کاموں میں مشغول ہیں ۔ عبد المالک نے جواب دیا : جس کام میں وہ مشغول ہیں وہ کتنا اچھا ہے ۔ (حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء، جلد 3 ، صفحہ 135)

مذکورہ واقعہ اگرچہ آپؑ کی دوسری اسیری کو بیان کرتا ہے لیکن جس طرح آپؑ دوسری اسیری میں با اختیار تھے اسی طرح پہلی اسیری میں بھی مختار تھے، لیکن چونکہ آپؑ کو سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچانا تھا لہذا آپؑ نے بیماری میں اسیری برداشت کی۔

تاریکی کے دامن کو چاک کرنا نور کی خاصیت ہے اور نور کی اہمیت کا اندازہ بھی اسی وقت ہوتا جب تاریکی بڑھ جاتی ہے ، امام زین العابدین علیہ السلام نور خدا تھے لہذا آپؑ جہاں گئے اموی جاہلیت کی تاریکی کا خاتمہ کر دیا ، یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بنی امیہ نے چالیس برس تک شام میں بغض اہلبیتؑ کی ترویج کی ، لوگوں کو اہل بیت اطہار علیہم السلام سے دور رکھا ، سو سال تک شام کے علاقہ میں کسی بچے کا نام ‘‘علی’’ نہیں رکھا گیا ۔ جب مولا علی علیہ السلام کی محراب عبادت میں شہادت ہوئی اور اس کی خبر شام پہنچی کہ علیؑ کو مسجد میں شہید کر دیا گیا تو اہل شام نے تعجب سے پوچھا کہ مسجد میں علیؑ کیوں گئے تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ حالت نماز میں مولاؑ کے سر پر ضربت لگی تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا علیؑ نماز بھی پڑھتے تھے۔ یہ تو بطور مثال ایک واقعہ پیش ہے ورنہ بنی امیہ نے اہل بیت علیہم السلام کے خلاف پروپگندہ کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ لہذا ضرورت تھی کہ شام کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں نور خدا روشن ہو جو اموی جاہلیت کی شکار انسانیت کو انوار الہی سے آشنا کرے۔ المختصر امام زین العابدین علیہ السلام اور آپؑ کی پھوپھی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی قیادت میں اسیران کربلا کا قافلہ جدھر سے گذرا لوگوں کو حق سے آشنا کرتا ہوا گذرا ، کہیں کسی عیسائی نے کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا تو کہیں کسی فریب خورہ نے اپنی غلطی پر شرمندہ ہوتے ہوئے معذرت کی اور حق اہل بیت علیہم السلام کا اعتراف کیا۔

شام کی جامع اموی میں جہاں ہمیشہ لوگوں نے صرف اہل بیت علیہم السلام پر سب و شتم سنے تھے اور ہر دین فروش ، ضمیر فروش مقرر نے مال دنیا کی لالچ میں بنی امیہ کی خوشنودی کے لئے اللہ کو ناراض کیا تھا ، وہاں امام زین العابدین علیہ السلام نے لوگوں کو حقیقت سے آشنا کیا ۔ نتیجہ میں جس شام میں قتل حسین ؑ پر عید منائی گئی تھی اسی شام میں شریکۃ الحسین زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے مظلوم کربلا کی فرش عزا بچھا کر عزاداری حسینؑ کی بنیاد رکھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام شام سے مدینہ واپس آئے تو وہاں بھی تحریک کربلا سے لوگوں کو آشنا کیا کہ جو لوگ کل تک امام حسین علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہنے سے کترا رہے تھے آج اپنی محرومی پر شرمندہ نظر آئے اور یزید کے خلاف اہل مدینہ نے محاذ کھول دیا۔ یزیدی فوج نے مدینہ پر چڑھائی کی اور قتل حسینؑ کے بعد یزید پلید نے حرم نبوی کی حرمت پامال کرنے کا جرم کیا ، مدینہ میں نہ کسی کی جان محفوظ تھی، نہ مال اور نہ ہی آبرو محفوظ تھی۔ حرم نبوی کی اس بے حرمتی کو واقعہ حرہ کےنام سے جانا جاتا ہے۔

واقعۂ حرہ کے وقت مدینہ میں اگر کسی کا گھر محفوظ تھا تو وہ امام زین العابدین علیہ السلام تھے ، آپؑ اپنے کنبہ کو لے کر بیرون مدینہ اپنی ایک زمین پر خیمہ لگا کر قیام پذیر ہو گئے ، اللہ رے کردار اہل بیتؑ کی عظمت مروان بن حکم جیسا دشمن آل رسول جسے رسول و آل رسول علیہم السلام کا بغض اور دشمنی میراث میں ملی تھی بلکہ اس کی پرورش ہی انکی دشمنی میں ہوئی تھی۔ یہ وہی مروان ہے جو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے جنازہ کی توہین میں آگے آگے تھا۔ یہ وہی خبیث تھا جس نے حاکم مدینہ کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر اکسایا تھا اور بیعت یزید کے لئے امام حسین علیہ السلام سے اصرار کیا تھا۔ لیکن آج جب یزیدی فوج سے خود اسے اپنی ناموس و آبرو کے سلسلہ میں خطرہ محسوس ہوا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں مدد کی درخواست کی جسے امام عالی مقام نے قبول کیا اور اس کی مدد کی۔

امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ حرہ یعنی یزید کے خلاف اہل مدینہ کے قیام میں بے طرف رہے ، کیوں کہ یہ قیام یزید کے خلاف ضرور تھا لیکن قیام کرنے والوں نے نہ اہل بیت علیہم السلام کو محوریت دی اور نہ ہی حرم نبوی مدینہ منورہ کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا، جس طرح عبد اللہ بن زبیر نے حرم الہی مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کے احترام کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا ۔ جب کہ رسول و آل رسول علیہم السلام نے ہمیشہ ان دو شہروں کی حرمت کو ملحوظ خاطر رکھا ، کیوں کہ حکومت و اقتدار ان کے لئے وسیلہ تھا مقصد نہیں تھا جب کہ ان اقتدار کے بھوکوں، خواہشات کے اسیروں اور دنیا کے فریب خورہ لوگوں کی نظروں میں دین اور اس کے مقدسات ہمیشہ وسیلہ رہے ہیں اور اقتدار کا حصول مقصد رہا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جس قیام میں اہل بیت علیہم السلام کو محوریت حاصل تھی اور امام حسین علیہ السلام کے لئے خلوص سے قیام کیا گیا تھا امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کی تائید فرمائی جیسے جناب مختار ؒ کا قیام۔

امام زین العابدین علیہ السلام کے دور امامت میں اموی اور مروانی غاصبوں نے حکومت کی، سب ایک سے بڑھ کر ایک ظالم و ستمگر اور گمراہ تھے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر پابندی تھی، مکہ اور مدینہ جو اللہ و رسول ؐ کا حرم ہیں ، جہاں وحی الہی کا نزول ہوا ہے وہاں نوبت یہ آگئی کہ یہ دونوں شہر ناچنے اور گانے والوں کا مرکز بن گئے ۔ نہ صرف اعمال بلکہ عقائد کے لئے بھی خطرات تھے، دشمنان دین کی جانب سے آئے دن نئے نئے شبہات اور سوالات ایجاد کئے جا رہے تھے۔ ایسے عالم میں امت مصطفیٰؐ کی ہدایت کے لئے ہادی امت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس جب نہ منبر تھا ، نہ محراب تھی اور نہ ہی آپ مجلس درس منعقد کر سکتے تھے۔ آپ نے امت کی ہدایت کے لئے دیگر ذرائع کا استعمال فرمایا جنمیں چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

1۔ عزا و بکا

2۔ بیان فضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام خصوصاً امام حسین علیہ السلام

3۔ دعا: امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ ہے۔ آپؑ کی دعائیں مجاوروں والی دعا نہیں ہیں بلکہ مجاہدوں والی دعائیں ہیں ، ظاہراً یہ صرف دعائیں ہیں لیکن حقیقت میں اسلامی عقائد، احکام اور اخلاق کا بحر ذخار ہیں ۔

4۔خدا اور بندگان خدا کے حقوق سے لوگوں کو آگاہ کرنا ۔ ( رسالہ حقوق)

5۔ غلاموں کی تربیت کرکے انہیں اسلام کا مبلغ بنانا۔ اس سلسلہ میں آپؑ کا دستور تھا کہ غلام خریدتے ، انکی تقریباً ایک سال تک تربیت فرماتے اور عید الفطر یا کسی اور اہم مناسبت پر انہیں آزاد کر دیتے۔ بعض روایات کے مطابق آپؑ نے ایک لاکھ غلام اپنے ذاتی پیسوں سے خریدے، انکی تربیت کی اور انہیں مبلغ اسلام بنا کر آزاد کر دیا۔

6۔ شاگرد پروری: امام زین العابدین علیہ السلام کو امامین باقرین و صادقین علیہما السلام کی طرح شاگرد پروری کا وہ موقع نہیں ملا لیکن جس قدر بھی موقع ملا آپؑ نے شاگرد تربیت کئے۔

آخر مروانی حاکم ولید بن عبدالملک نے امام زین العابدین علیہ السلام کو زہر دلایا اور 25؍ محرم سن 95 ہجری کو مدینہ منورہ میں آپؑ شہید ہو گئے۔ تاریخ اہل بیتؑ میں مدینہ میں پہلا جنازہ امام زین العابدین علیہ السلام کا تھا جو بڑی شان و شوکت کے ساتھ اٹھا اور جنت البقیع میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جہاں عباسی دور میں گنبد و بارگاہ تعمیر ہوئے، زائرین زیارت کے لئے آپؑ کے روضہ پر حاضری دیتے تھے لیکن افسوس صد افسوس آل سعود نے آپؑ کے روضے کو منہدم کر دیا۔ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا لیکن آپؑ کا مزار ویران ہے جو عالم اسلام کی غیرت پر سوالیہ نشان ہے۔

خدا ہمیں امام زین العابدین علیہ السلام کی معرفت عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .