حوزہ نیوز ایجنس کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین سے ملاقات میں گھرانے، سماج، سیاست اور مختلف سطحوں کی انتظامی امور سے متعلق سرگرمیوں میں خواتین کی موجودگي کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اسلام کے منطقی اور عاقلانہ نظریے پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام میں ہر طرح کی سماجی سرگرمی کے لیے مردوں کی طرح ہی عورتوں کے لیے بھی دو باتوں پر عمل کے ساتھ راستہ کھلا ہوا ہے اور وہ دو اہم اور حساس چیزیں گھرانے کی حفاظت اور جنسی کشش کے خطرے سے بچنا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے قریب آنے کی مناسبت سے ہونے والی اس ملاقات میں انھوں نے عورت کے تشخص، اقدار، حقوق، ذمہ داریوں، آزادیوں اور حدبندیوں کو بہت ہی حیاتی اور فیصلہ کن مسئلہ بتایا اور کہا کہ اس انتہائي اہم مسئلے کے بارے میں دنیا میں مغرب اور اسلام کے دو بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مغرب کے تمدنی و ثقافتی نظام کی جانب سے خواتین کے اہم مسائل کے سلسلے میں بحث سے گریز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ خواتین کے بارے میں مغرب والوں کے پاس کوئي منطق نہیں ہے اس لیے وہ ہر سوال اور ہر موضوع کا سامنا ہوتے ہی کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو ہنگامہ آرائي اور شور شرابہ کر کے اور اسی طرح سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کو خرید کر اور آرٹ، ادب، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کو ہتکھنڈے کے طور استعمال کر کے اور خواتین سے متعلقہ عالمی مراکز پر کنٹرول کر کے اپنی بات کو آگے بڑھائيں۔
انھوں نے مغرب میں اخلاقی بے راہ روی کے وحشتناک سرکاری اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں، مغرب میں ہر وہ بات روز بروز زیادہ فروغ پاتی جا رہی ہے جو گھرانے کو منہدم کر دیتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باحجاب خواتین پر حملہ کرنے والوں کی سنجیدگي سے نہ تو مذمت ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے سختی سے نمٹا جاتا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے خواتین کے سلسلے میں اسلام کے رویے کو مغرب کے رویے کے برخلاف منطقی اور عاقلانہ بتایا اور کہا کہ عورت کا مسئلہ، اسلام کے مضبوط پہلوؤں میں سے ایک ہے اور یہ نہیں سوچا جانا چاہیے کہ عورت کے مسئلے میں ہم جوابدہ ہیں۔
انھوں نے انسانی فضائل اور اقدار میں عورت اور مرد کی برابری کو اسلام کی ٹھوس اور عاقلانہ منطق کا ایک پہلو بتایا اور کہا کہ انسانی اقدار اور روحانی عروج میں عورت اور مرد کو کسی بھی صورت میں ایک دوسرے پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ روحانی پہلوؤں کے لحاظ سے خداوند عالم نے کبھی کبھی عورتوں کو مردوں پر ترجیح بھی دی ہے اور فرعون کی زوجہ اور حضرت مریم جیسی خواتین کو تمام مومن انسانوں کے لیے آئیڈیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے معاشرے میں سرگرم موجودگي اور سماجی ذمہ داریاں نبھانے کو عورت اور مرد کے لیے ایک اور یکساں میداں قرار دیا اور کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بقول سیاست اور ملک کے بنیادی مسائل میں دخیل ہونا عورتوں کا حق اور ان کی ذمہ داری ہے اور اسی کے ساتھ روایات کے مطابق غزہ کے آج کے مسئلے جیسے مسلمانوں کے امور کے بارے میں اہتمام سمیت معاشرے کے امور کے سلسلے میں کام کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔
انھوں نے گھریلو ذمہ داریوں کو ایک ایسا موضوع بتایا جس کے سلسلے میں اپنی جسمانی و روحانی صلاحیت و طاقت کے پیش نظر عورت اور مرد کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس بنا پر "جنسی مساوات" (Gender equality) کا نعرہ، جسے لوگ مطلق طور پر بیان کرتے ہیں، غلط ہے اور جو چیز صحیح ہے اور "جنسی انصاف" (Gender justice) ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بچوں کی پیدائش اور پرورش جیسے عورتوں سے مختص فرائض کو ان کی روحانی، جسمانی اور جذباتی ساخت کے مطابق بتایا اور کہا کہ اگرچہ عورت اور مرد کی گھریلو ذمہ داریاں الگ الگ ہیں لیکن قرآن مجید کے مطابق ان کے گھریلو حقوق یکساں ہیں۔
انھوں نے افزائش نسل اور انسانی حیات کے جاری رہنے کو یقینی بنانے کے سبب ماں کے کردار کو خلقت انسانی کا سب سے اہم اور سب سے برتر کردار بتاتے ہوئے کہا کہ یہ سوچ پوری طرح غلط ہے کہ گھر کا کام، عورت کی ذمہ داری ہے بلکہ گھر کے کام افہام و تفہیم سے ہونے چاہیے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے گھر کے اندر تشدد جیسی بعض مشکلات سے نمٹنے کی راہ، ایسے قوانین کی منظوری بتایا جن میں ان مردوں کے لیے سخت سزائيں ہوں جو گھر کے ماحول کو عورت کے لیے بدامن بنا دیتے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں، اسلامی جمہوریہ کے مختلف شعبوں اور میدانوں میں خواتین کی پیشرفت کو، انقلاب سے پہلے کی نسبت دس گنا سے زیادہ بتایا اور کہا کہ یہ پیشرفت ایسی حالت میں حاصل ہوئي ہے کہ ہم ابھی تک حقیقی معنی میں ملک کو اسلامی نہیں بنا سکے ہیں اور وہ، مکمل اسلامی نہیں ہو پایا ہے اور اگر اسلام پوری طرح سے نافذ ہو جائے تو یہ کامیابیاں کئي گنا بڑھ جائیں گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اہلیت کو، وزارت یا پارلیمنٹ کی رکنیت جیسے عہدوں پر سماجی اور سیاسی ذمہ داریاں دینے کی واحد کسوٹی بتایا۔ انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں مارچ 2024 کے آئندہ انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سماج اور گھرانے میں اس سلسلے میں خواتین کے کردار کو ضروری بتایا۔