حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن بدھ 20 مارچ کی شام حسینیۂ امام خمینی میں عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے ملاقات کی۔
انھوں نے قوم کے تمام افراد کو نوروز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، فطرت کی بہار اور معنویت کی بہار ماہ رمضان کی ایک ساتھ آمد کو انسان کے جسم، روح اور جان کی شادابی اور شکوفائي کی راہ ہموار ہونے کا سبب بتایا اور کہا کہ ماہ رمضان کا ہنر اور طاقت یہ ہے کہ وہ روزے، عبادت، توسل اور دعاؤں کی معنوی نسیم کے ذریعے غافل نہ رہنے والے انسان کو اشتیاق و جدوجہد کے ساتھ بہتری و بندگي کی راہ کی طرف لے آتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے واقعات اور نام نہاد متمدن اور انسانی حقوق کی دعویدار دنیا کی نظروں کے سامنے تیس ہزار سے زیادہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام کو مغربی دنیا پر حکمراں ظلم و تاریکی کا عکاس بتایا اور کہا کہ امریکا اور یورپ والوں نے نہ صرف یہ کہ غاصب حکومت کے جرائم کی روک تھام نہیں کی بلکہ بالکل شروعاتی دنوں میں ہی مقبوضہ علاقوں کا دورہ کر کے اپنی حمایت کا اعلان کیا اور جرائم جاری رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھیار اور امداد بھیجی۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے خطے میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی حقانیت کے اثبات کو غزہ کے حالیہ کچھ مہینوں کے واقعات کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ ان واقعات نے دکھا دیا کہ اس خطے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگي، سب سے حیاتی مسائل میں سے ایک ہے بیدار ضمیروں سے نکلنے والے اور صیہونی مجرموں کے ستّر سالہ ظلم و غاصبانہ قبضے سے مقابلے کے لیے تشکیل پانے والے اس محاذ کی روز بروز تقویت ہونی چاہیے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ مغربی ایشیا میں روز بروز مزاحمتی محاذ کو مزید مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل صیہونیت کے مجرمین کے لگاتار جاری ظلم سے مقابلے کے لیے ہوئي ہے اور مزاحمت نے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر اور دشمن کے تمام اندازوں کو نقش بر آب کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمتی محاذ کی توانائيوں کے سامنے آنے کو غزہ کی موجودہ جنگ کا ایک اور نتیجہ بتایا اور کہا کہ مغرب والوں کو بھی اور خطے کی حکومتوں کو بھی مزاحمت کی طاقت و توانائيوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا لیکن آج وہ غزہ کے مظلوم عوام کے صبر، حماس اور دیگر استقامتی گروہوں سمیت فلسطینی مزاحمت کے عزم و ارادے اور لبنان، یمن اور عراق میں مزاحمت کے طاقت و عزم کا مشاہدہ کرنے پر مجبور ہیں۔
انھوں نے مزاحمتی محاذ کی طاقت کے عیاں ہونے کو امریکیوں کے اندازوں اور علاقائي ممالک پر مسلط ہونے کی ان کی منصوبہ بندیوں کے درہم برہم ہو جانے کا سبب بتایا اور کہا کہ مزاحمت کی طاقت نے ان کے اندازوں کو نقش بر آب کر دیا اور دکھا دیا کہ امریکی نہ صرف خطے پر مسلط نہیں ہو سکتے بلکہ وہ خطے میں رک بھی نہیں سکتے اور علاقے سے نکلنے پر مجبور ہیں۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے سبھی کے لیے صیہونی حکومت کی بحرانی صورتحال کے آشکار ہو جانے کو غزہ کے واقعات کی ایک اور حقیقت بتایا اور کہا کہ ان واقعات نے دکھا دیا کہ صیہونی حکومت نہ صرف یہ کہ اپنی حفاظت کرنے میں بحران کا شکار ہے بلکہ وہ بحران سے باہر نکلنے میں بھی بحران کا شکار ہے کیونکہ غزہ کی جنگ میں داخل ہو کر وہ ایک دلدل میں گھس گئي ہے اور وہ چاہے غزہ سے باہر نکلے یا نہ نکلے، ہر حال میں شکست خوردہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ غاصب حکومت کے عہدیداروں کے درمیان شدید اختلافات اور تضادات اس حکومت کو زوال کے زیادہ قریب کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا نے غزہ کے معاملے میں سب سے برا موقف اختیار کیا، کہا کہ لندن، پیرس اور خود امریکا کی سڑکوں پر فلسطین کے حق میں عوامی مظاہرے در حقیقت امریکا سے نفرت کا اعلان ہیں۔
انھوں نے غزہ کے معاملے میں امریکا کے غلط موقف اور اندازے کو دنیا میں امریکا سے نفرت بڑھنے اور خطے میں اس سے نفرت میں دس گنا اضافے کا سبب بتایا اور کہا کہ یمن سے عراق اور شام سے لبنان تک خطے میں جہاں بھی مزاحمت کے بہادر مجاہدین امریکیوں کے خلاف کوئي بھی اقدام کرتے ہیں، امریکی اس اقدام کو ایران سے جوڑ دیتے ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ یہ بتاتا ہے کہ امریکیوں نے خطے کے عوام اور اس کے شجاع اور باعزم جوانوں کو نہیں پہچانا ہے اور یہی غلط اندازہ یقینی طور پر امریکیوں کو دھول چٹا دے گا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہر ممکن حد تک مزاحمت کی حمایت، تعریف اور مدد کر رہا ہے، کہا کہ البتہ یہ خود مزاحمتی گروہ ہیں جو فیصلہ اور اقدام کرتے ہیں اور وہ حق بجانب ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خطے میں موجود بڑے ظلم یعنی صیہونی حکومت کے وجود کو ختم کر دیا جانا چاہیے اور ہم ہر اس شخص کے طرفدار، حامی اور معاون ہیں جو اس اسلامی، انسانی اور ضمیر کے جہاد میں شامل ہو اور اللہ کی توفیق سے ہم یہ مقصد حاصل کر کے رہیں گے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں اس سال کو "عوامی مشارکت سے پیداوار میں جست" کا نام دیے جانے کو ایک نمایاں نعرہ بتایا اور کہا کہ عہدیداروں کی منصوبہ بندی اور کوشش سے، معیشت کے شعبے میں فعالیت کے لیے ایک طرح کی عوامی لام بندی ہو جائے تو پیداوار میں جست کے انتہائي اہم نعرے کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہو جائے گا۔
انھوں نے ایران کی معیشت کا شیرازہ بکھیرنے اور ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی امریکا اور اس کے ہمنواؤں کی مسلسل کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم کی مدد سے وہ اب تک اپنے اس مقصد میں ناکام رہے ہیں اور اس کے بعد بھی عہدیداران اور عوام کی کوشش، جدوجہد اور عزم و ارادے سے ناکام ہی رہیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غیر ملکی اور بین الاقومی سطح پر معاشی کوششوں کے جاری رہنے کو بھی ضروری اور اہم بتایا اور کہا کہ ملکوں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں کو قومی اور عملی معاہدوں میں تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ان کے نتیجے عملی طور پر دکھائي دیں۔
انھوں نے قومی مفادات اور ملک کے روشن مستقبل کو، ایمان اور امید پر منحصر بتایا اور کہا کہ اگر دلوں میں امید کی شمع بجھ جائے تو پھر کوئي بھی کام نہیں ہوگا۔
انھوں نے باصلاحیت جوان، کام کے لیے تیار قوم، بے نظیر قومی ذخائر اور ممتاز جغرافیائي پوزیشن کو ملک کی پیشرفت جاری رہنے کی بے پناہ گنجائشوں میں شمار کیا اور کہا کہ پیشرفت کا لازمہ یہ ہے کہ سبھی مستقبل کی طرف سے پرامید رہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر دکھانے اور ترقی و پیشرفت کے انکار کے لیے طرح طرح کے تشہیراتی اور میڈیائي حربوں کے استعمال کو بدخواہوں کے دائمی اقدامات میں سے بتایا اور کہا کہ دشمن برسوں سے اس طرح کے کام کر رہا ہے لیکن ملک کے اندر ہمیں اس طرح کی خطا اور غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے جوانوں کو دشمن کی سازشوں سے آگے رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ دشمن آپ کو مایوس کرنا چاہتے ہیں اور پیشرفت کی بعض آوازیں آپ تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے لیکن آپ دشمن کی مایوسانہ کوششوں سے زیادہ امید اور پیشرفت کے لیے کام کیجيے۔