حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلام دشمن میڈیا کے پروپیگنڈے کو ناکام کرنے کے لئے ضروری ہے اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اس کی تعلیمات کو عام کیا جائے کہ اسلام امن کا پیغامبر ہے اسلامی تعلیمات محبت ، بھائی چارہ ، رواداری و اعلیٰ اقدار اخلاقی و انسانی پر مبنی ہیں ہر شیعہ کی ذمہ داری ہے اپنے آس پاس کالج یونیورسٹی ، دفتر و فیکٹری ، بازار ، محلے و پارک و سفر و حضر میں قران و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو نشر کرے۔ اس سلسلے میں تقریب مذاہب کے پروگرام زیادہ سے زیادہ کئے جائیں۔ اسی سلسلے میں پیر ۱۸ مارچ کو امام بارگاہ قائم میں افطار ( multicultural Iftar Dinner کا اہتمام کیا گیا جس میںMulticultural Minister و مقامی ممبر پارلیمنٹ و وزیر تعلیم و میئر و اراکین کونسل کے ساتھ مختلف ادیان و مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس تقریب کی خاص بات یہ تھی غير مسلم خواتین نے مکمل حجاب کیا ہوا تھا اور انھوں نے کہا حجاب پہن کر خوشی ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ آسٹریلیا میں مقیم مایہ ناز خطیب و مبلغ اور امام جمعہ ملبورن حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابو القاسم رضوی و صدر شیعہ علماء کونسل آسٹریلیا نے دعوت نامے کے ساتھ شرکاء کے لئے ڈریس کوڈ کی درخواست کی جس پر پہلے بھی عمل ہوا تھا اس بار بھی ہوا۔
اس تقریب کو خطاب کرتے ہوئے مہمانوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ اسلام کی تعلیمات کو سراہا اور مولانا سید ابوالقاسم رضوی کی قیادت میں بین المذاہب قائم فاؤنڈیشن کی خدمات کو سراہا اور مولانا کو اس بے چینی و اضطراب و خلفشار و نفرت کے دور میں انسانیت کے لئے امید اور قوم و ملت کے لئے ایک پل قرار دیا۔
شرکاء نے سوالات کئے اور جوابات پر بے حد خوش و مطمئن رہے یہ سوال کہ روزہ کس عمر میں واجب ہوتا ہے مولانا ابوالقاسم رضوی نے بتایا کہ لڑکوں پر پندرہ سال و لڑکیوں پر نو سال پر واجب ہوتا ہے اس کی وجہ لڑکیوں میں احساس ذمہ داری و شعور لڑکوں کے مقابلے پہلے آجاتا ہے وہ wise, duteousاور responsible ہوتی ہیں اور ہم اسے اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں تو اللہ ہمارا خالق ہے وہ بہتر جانتا ہے اسی طرح اسلام کے سارے اصول فطرت پر مبنی ہیں مولانا نے مثالیں دے کر سمجھایا تالیوں کی گھڑگھڑاہٹ نے ثابت کیا شرکاء مطمئن ہیں پھر ڈائس پر آکر لوگوں نے کہا دعوت کے لئے شکریہ ہم نے آج اسلام کو قریب سے دیکھا محسوس کیا اسی طرح حجاب کے سلسلے میں تمام مذاہب و ادیان میں حجاب کا قانون اور عورت کی عفت و وقار و تشخص و انفرادیت و عظمت اس سے جڑی ہے سامعین نے اس پہلو کو سراہا پھر مساجد میں جوتے اتار کر آنے کے تعلق سے سوال کا جواب مولانا نے اس طرح دیا کہ تمام مذاہب میں اسی طرح کا حکم ہے اور جیسے ہی حضرت موسیٰ کا حوالہ دیا فورا عیسائی پادری نے اجازت لے کر مولانا کی بات مکمل کی کہ حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر جوتیاں اتار کر آنے کا حکم دیا گیا کہ یہ مقدس جگہ ہے۔
اسی طرح مولانا ابوالقاسم رضوی نے روزے کا مقصد اور روزے دار کو افطار و کفارے و فدیہ کی منطق و سبب کو جب بیان کیا کہ آج ایک تہائی دنیا بھوک مری کا شکار ہے اس کا مقصد معاشرے سے بھوک و ناداری کا خاتمہ کرنا ہے شرکاء کو تحفے میں گلدستہ و اسکارف و کتاب و چاکلیٹ بھی بعد افطار پیش کیا گیا۔
اسی طرح نماز جماعت کے منظر سے شرکاء متاثر ہوئے کہ بڑا روحانی دل کو چھونے والا منظر تھا عبادت میں ایسا ڈسپلن کہ ایک ساتھ کھڑے ہیں ایک ساتھ رکوع و سجدے میں جا رہے ہیں اسی فرض دعا کے لئے بلند ہونے والے ہاتھوں نے بہت متاثر کیا۔پھر جوانوں کی اکثریت کو دیکھ کر بہت سراہا کہ تمام مذاہب کو شکایت ہے کہ جوان دین سے دور ہو رہا ہے آپ کے ہاں کیسے اتنا قریب ہے اس طرح سے آپ اپنی نسل کو بچا رہے ہیں جواب میں مولانا نے کہا اسی سبب الکحل ، منشیات ، و ڈپریشن کے کیسز الحمد للٰہ ہمارے ہاں نہیں پائے جاتے۔آج اسی طرح سے برائی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ہمارے مراکز نجات کی کشتی ہیں۔
دوسرے دن پارلیمنٹ میں وزیر نے قائم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام افطار اور مولانا کی تقریر و مولانا کے جوابات جنھوں نے ابہام اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بے حد مدد کی اور مولانا و ادارے کی خدمات کو ان الفاظ میں سراہا آج کے اس سیشن میں ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور ایسے پروگرامز کا انعقاد ہوتا رہے تاکہ محبت عام ہو امن قائم ہو غلط فہمیاں دور ہوں۔
مولانا سید ابوالقاسم رضوی صاحب نے پاڑوسیوں و چرچ اور اہل سنت کی مسجد و دیگر مراکز کا ان کے تعاون کے لئے شکریہ ادا کیا کہ ہمارے بڑے پروگرام میں وہ اپنے مراکز کے دروازے کھول کر پارکنگ کی سہولت فراہم کرتے ہیں آج اسی محبت و رواداری کی ضرورت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ Mosque open day کے بعد اس تقریب کے انعقاد نے اسلام کا روشن و تابناک چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس کی گونج عوامی حلقوں سے ایوان پارلیمنٹ میں سنائی دی۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے قائم فاؤنڈیشن آسٹریلیا کی جانب سے مولانا ابوالقاسم رضوی کی انھیں خدمات کے اعتراف میں دو سال پہلے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔