حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فاطمیہ ایجوکیشنل کمپلیکس مظفرآباد آزاد کشمیر پاکستان میں شہادتِ امام محمد تقی علیہ السلام کے سلسلے میں مجلسِ عزاء کا اہتمام کیا گیا، جس سے خواہر سیدہ عزیز نقوی نے خطاب کیا۔
نمازِ ظہرین کے بعد مجلسِ عزاء کا باقاعدہ آغاز زیارتِ عاشورا کی تلاوت سے کیا گیا اور سوز و سلام اور نوحے پیش کئے گئے۔
خواہر سیدہ عزیز نقوی نے مجلسِ عزاء سے خطاب میں امام محمد تقی علیہ السلام کے فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو تمام آئمہ معصومین علیہم السلام صفات و کمالات میں ایک جیسے ہیں، مگر ایک خصوصیت جو امام تقی علیہ السلام کی تمام ائمہ میں نمایاں تھی کہ وہ منصب امامت پر 7 سال کی عمر میں فائز ہوئے۔ مگر لوگوں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور سب نے ہنگامہ برپا کر دیا کہ اتنی چھوٹی عمر میں ایک شخص کیونکر امام ہو سکتا ہے اور اس قسم کے اعتراضات اٹھانے والوں میں ایک شخص یونس بن عبد الرحمن تھا جن کا شمار امام کے دور میں نمایاں شخصیات میں ہوتا تھا مگر بے بصیرت تھا، لیکن انہی لوگوں میں سے ایک شخص عبد العظیم ہیں جو کہ با بصیرت انسان تھے۔ آپ نے یونس بن عبد الرحمٰن کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ تم یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ کیا امامت منصب الٰہی نہیں، اور اس منصب میں تو عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے گہوارے میں اپنی نبوت کا علان نہیں کیا۔؟
محترمہ سیدہ عزیز نقوی نے کہا کہ ہر دور میں دو طرح کے گروہ ہوتے ہیں ایک عام لوگوں کا جو کبھی ایک نظریے کے مالک ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے کے اور دوسرا گروہ وہ ہے کہ جن میں خاص لوگ ہوتے ہیں، اگر وہ بابصیرت ہوں تو دین کو فائدہ پہنچاتے ہیں، لیکن اگر وہ بے بصیرت ہوں تو دین کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
خواہر عزیز نقوی کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہمیں دین کے لیے ایک معاصر شخصیت بننا ہے تو ہمیں بابصیرت ہونا پڑے گا۔
خواہر عزیز نقوی نے مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے مختلف روایات کی روشنی میں امام علیہ السلام کی تبلیغات اور ان کے اثرات کے بارے میں بیان کیا۔
29 ذوالقعدہ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے کہ جس میں اہل بیت علیہم السّلام کے ایک اور روشن چراغ کو بجا دیا گیا۔ یہ وہ دن ہے جس میں مؤمنوں کے نویں امام محمد تقی علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔